الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
یہ وہ مظلوم ہیں جو بغیر کسی حق کے اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، ان کا کوئی جرم نہ تھا، اگر تھا تو صرف یہ کہ وہ کہتے تھے ہمارا پروردگار اللہ ہے، اور دیکھو اگر اللہ بعض آدمیوں کے ہاتھوں بعض آدمیوں کی مدافعت نہ کراتا رہتا (اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ظلم و تشدد کرنے کے لیے بے روک چھوڑ دیتا) تو کسی قوم کی عبادت گاہ زمین پر محفوظ نہ رہتی۔ خانقاہیں، گرجے، عبادت گاہیں، مسجدیں، جن میں اس کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے سب کبھی کے ڈھائے جاچکے ہوتے۔ (یاد رکھو) جو کوئی اللہ (کی سچائی) کی حمایت کرے گا ضروری ہے کہ اللہ بھی اسکی مدد فرمائے۔ کچھ شبہ نہیں وہ یقینا قوت رکھنے والا اور سب پر غالب ہے۔
[٦٧] مسلمانوں کو یہ سب مصائب اس لئے جھیلنا پڑے اور انھیں صرف اس جرم بے گناہی کی سزا دی جاتی رہی کہ وہ صرف ایک اللہ کے پرستار تھے۔ مکہ میں جس قدر مظالم ڈھائے گئے یہ داستان اتنی طویل اور خونچکاں ہے جس کا بیان یہاں ممکن نہیں اور اس کے لئے ایک الگ کتاب درکار ہے اس بات کا کچھ تھوڑا بہت اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مکی دور میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدس پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے اور سازشیں تیار کی گئیں ان کا مختصر ذکر سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٦٧ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے۔ [٦٨] معرکہ حق وباطل میں اللہ اہل حق کی مددکیوں کرتے ہیں ؟ اس آیت میں الناس سے مراد مشرکین اور اللہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے لوگ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب بدی زور پکڑنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اہل حق کا ساتھ دے کر، خواہ وہ اہل حق کتنے ہی تھوڑے اور کمزور ہوں، بدی کا زور توڑ دیتا ہے۔ وہ قوت جسے اپنے سرنگوں ہونے کا تصور تک بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اللہ انھیں حق و باطل کے معرکہ میں لاکر اور اہل حق کی امداد کرکے انھیں صفحہ ہستی سے ملیا میٹ کردیتا ہے۔ اللہ کا یہ قانون اگر جاری و ساری نہ ہوتا تو مشرکین اور باطل قوتیں اہل حق کو کبھی جینے نہ دیتیں نہ ہی ان کے عبادت خانے برقرار رہنے دیتیں جن میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اور ان کے بجائے بس بت خانے۔۔ اور آستانے ہی دنیا میں نظر آتے۔ اس آیت میں صومعۃ کا لفظ راہب قسم کے لوگوں کے عبادت خانوں کے لئے بِيَع (واحد بيعة) عیسائیوں کی عبادت گاہ یا گرجا کے لئے صلوٰت یہودیوں کی عبادت گاہوں کے لئے اور مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے لئے استعمال ہوا ہے اور اب مسلمانوں کو جو جہاد و قتال کی اجازت دی جارہی ہے۔ تو وہ اللہ کے اسی قانون کے مطابق ہے کہ اللہ اہل حق کی امداد کرکے باطل کا سر کچل دے۔ اس آیت میں دراصل مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی بشارت دی گئی ہے اسی قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں مشرکوں کے غلبہ کو روکا اور اہل حق کو ان سے بچایا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ہی اسرائیل کو مشرکوں کے شر سے محفوظ رکھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں نصاریٰ کو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ یقیناً مسلمانوں کو بھی مشرکین کے شر سے محفوظ رکھے گا اور انھیں غلبہ عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کردینے اور اہل ایمان کے حق میں انھیں ساز گار بنانے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔