أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ
جن (مومنوں) کے خلاف ظالموں نے جنگ کر رکھی ہے، اب انہیں بھی (اس کے جواب میں) جنگ کی رخصت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر سراسر ظلم ہورہا ہے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔
[٦٥]جہادکی اجازت کی پہلی آیت:َ مکہ میں جب مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے تو اس وقت بعض جرأت مند صحابہ نے ان کافروں سے جنگ کرنے کی اجازت طلب کی تھی مگر اس وقت اللہ نے انھیں ایسی اجازت نہیں دی۔ بلکہ صبر و استقامت سے ظلم کو برداشت کرنے کی ہی تلقین کی جاتی رہی۔ پھر جب مسلمان مدینہ میں منتقل ہوگئے اور ایک چھوٹی سی اسلام مملکت کی داغ بیل پڑگئی، جو صرف مدینہ کے ایک چھوٹے سے قصبے تک محدود تھی۔ مسجد نبوی تعمیر ہوگئی جو مسلمانوں کے ہر طرح کے معاملات میں ہیڈ کو ارٹر کا کام دیتی تھی۔ مہاجرین کے مسئلہ معاش کو مواخات کے ذریعہ کسی حد تک حل کرلیا گیا۔ یہودی قبائل اور مشرک قبائل سے امن و آشتی کے ساتھ آپس میں رہنے کے ماہدات طے پاگئے۔ اور مسلمان اس قابل ہوگئے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ تو ان کو کافروں سے جہاد کرنے کی اجازت مل گئی۔ اور یہی وہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو مدافعانہ جنگ کی اجازت دی گئی اور اس اجازت کی وجہ صاف الفاظ میں بتلا دی گئی کہ یہ اجازت انھیں اس لئے دی جارہی ہے کہ ان پر مسلسل ظلم ڈھائے جاتے رہے ہیں۔ یہ اجازت سن 1 ہجری کے آخر میں ملی تھی۔ بعد میں بہت سی ایسی آیات نازل ہوئیں جن میں صرف مدافعانہ جنگ کی اجازت ہی نہیں بلکہ ہر اس قوت سے بھڑ جانے اور جہاد کرنے کا حکم دیا گیا جو اللہ کے دین کے راستہ میں مزاحم ہورہی ہو۔ [٦٦] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ جہاد و قتال کے بغیر بھی مسلمانوں کی مدد کرکے انھیں غالب کر دے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ مسلمانوں کو بے سروسامان، تنگدست اور مٹھی بھر جماعت کو ان کفار مکہ پر غالب کردے جو اسلحہ، مال و دولت اور تعداد ہر لحاظ سے مسلمانوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ مزید برآں تمام مشرک قبائلی اور یہود بھی ان کے معاون و مددگار ہیں۔