سورة الحج - آیت 37

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یاد رکھو ! اللہ تک ان قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے نہ خون، اس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ تو صرف تمہارا تقوی ہے (یعنی تمہارے دل کی نیکی ہے) ان جانوروں کو اس طرح تمہارے لیے مسخر کردیا کہ اللہ کی رہنمائی پر اس کے شکر گزار رہو اور اس کے نام کی بڑائی کا آواز بلند کرو، اور نیک کرداروں کے لیے (قبولیت حق کی) خوشخبری ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦١] مشرکین کی یہ عادت تھی کہ جب وہ کسی بت کے نام پر کوئی قربانی کا جانور ذبح کرتے تو اس کا گوشت اس کے سامنے رکھ دیتے اور اس کا خون بت کے جسم پر مل دیتے تھے۔ بتوں کے سامنے رکھا ہوا گوشت تو بتوں کے مجاوروں کے کام آتا تھا اور وہی ان بتوں کو بعد میں صاف بھی کر ڈالتے تھے۔ اور جب وہ اللہ کے نام کی قربانی کرتے تو بھی گوشت کعبہ کے سامنے لا رکھتے اور خون کعبہ کی دیواروں سے لتھیڑ دیتے یا اس پر اس خون کے چھینٹے ڈالتے۔ گویا ان کے خیال کے مطابق قربانی کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس کا گوشت اور خون پیش کردیا جائے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس جاہلی نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کو نہ تمہارے قربانی کے جانوروں کے گوشت کی ضرورت ہے اور نہ خون کی۔ خون تو ویسے ہی حرام اور ناپاک چیز ہے اور گوشت تم خود ہی کھا سکتے ہو اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ اللہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ تم نے کس نیت، خلوص اور محبت کے ساتھ اللہ کے حضور یہ قربانی پیش کی ہے۔ تمہاری نیت میں جس قدر خلوص اور تقویٰ ہوگا وہی اللہ کے حضور اس قربانی کی قدروقیمت ہوگی۔ قربانی کی قبولیت کی شرائط اورنیت کے فتور کی صورتیں :۔ بعض لوگ قربانی محض رسم کے طور پر بجا لاتے ہیں۔ بعض اس لئے کہ ہمارے بچے آخر دوسرے کی طرف سے گوشت آنے کا کیوں انتظار کرتے رہیں۔ اور بعض دولتمند اس لئے کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ انھیں طعنہ نہ دیں۔ اور بعض اس لئے کوئی موٹا، عمدہ اور قیمتی جانور قربانی کرتے ہیں کہ لوگوں میں ان کی شہرت ہو۔ اور بعض بخل سے کام لے کر کوئی کمزور اور عیب دار قسم کا جانور قربان کردیتے ہیں۔ ایسے سب لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے۔ کہ اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھتا ہے آیا اس بندہ نے جو قربانی کی ہے وہ اللہ کی احسان مندی اور شکر بجا لاتے ہوئے شوق و محبت سے کی ہے یا نہیں۔ اگر کسی کی نیت ہی لنگڑی لولی ہو تو اگر وہ کوئی موٹا تازہ جانور بھی قربان کرے گا تو اس کا اسے کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟۔ [٦٢] بڑائی بیان کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر یا بسم اللہ واللہ اکبر اور شکر کی ادائیگی کے لئے اللھم منک ولک (یعنی اے اللہ ! یہ قربانی کا جانور تو نے ہی عطا کیا تھا اور تیری رضا کے لئے میں اسے قربان کر رہا ہوں) پڑھنا چاہئے۔ [٦٣]حج نہ کرنے والوں کوحاجیوں سے مماثلت کےاحکام :۔ جب ستم رسیدہ مسلمان ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ آئے تو انھیں کئی قسم کے غم اور تفکرات لاحق تھے۔ گھر بار اور اپنا وطن مالوف چھوڑنے کا غم یا مدینہ میں آب و ہوا کی ناسازگاری، ذریعہ معاش کی فکر، کفار مکہ کی ایذا رسانیوں کی یاد جو انھیں بے چین کردیتی تھی۔ مزید ستم یہ کہ مدینہ میں آنے کے بعد بھی کفار مکہ نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ علاوہ ازیں ایک بڑا غم مسلمانوں کو بیت اللہ شریف سے دور ہوجانے کا تھا۔ جسے اب وہ دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ مناسک حج و عمرہ بجا لانا تو دور کی بات تھی۔ انھیں حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی طرف سے کافروں کی مدافعت کر رہا ہے اور وہ بتدریج ایسے حالات پیدا کردے گا کہ مسلمانوں کے لئے سب راہیں کھل جائیں گی۔ اور ان کے دشمن ہی بالآخر خائب و خاسر ہوں گے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو کئی ایسے احکام دیئے گئے ہیں جن سے ان کی مناسک حج و عمرہ کی بجا لانے کی حسرت کی کسی حد تک تلافی ہوسکتی تھی۔ اور ان احکام پر حج کرنے والوں سے مماثلت بھی پائی جاتی تھی۔ مثلاً مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان میں ہر صاحب استطاعت ١٠ ذی الحجہ کو قربانی کیا کرے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال قربانی دیتے رہے نیز مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ یکم ذی الحجہ کا یعنی چاند دیکھنے سے لے کر قربانی کرنے تک نہ حجامت بنوائے اور نہ ناخن کٹوائے۔ نیز یہ کہ مسلمان کسی دوسرے کے ہاتھ میں اپنا قربانی کا جانور بیت اللہ شریف بھیج سکتے ہیں۔ نیز ایام تشریق میں وہ بھی اسی طرح تکبیرات پڑھا کریں جس طرح حاجی حضرات ان دنوں میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔