سورة الحج - آیت 11

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی تو کرتے ہیں مگر دل کے جماؤ سے نہیں، اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچ گیا تو مطمئن ہوئے، اگر کوئی آزمائش آلگی تو الٹے پاؤں اپنی (کفر کی) حالت پر لوٹ پڑے، وہ دنیا میں بھی نامراد ہوئے اور آخرت میں بھی، اور یہی جو آشکارا نامرادی ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠]منافق دنیااور آخرت دونوں جگہ بڑے خسارے میں رہتےہیں :۔ یعنی کفر اور اسلام کی سرحد پر ہی کھڑا رہتا ہے۔ اسلام میں داخل ہوتا ہی نہیں اور اس انتظار میں وہاں کھڑا ہے کہ اگر اسلام لانے سے کوئی مادی فائدہ پہنچنے کی توقع ہے تو پھر تو اسے اسلام گوارا ہے لیکن اگر اسلام میں داخل نہ ہونے میں کوئی مشکل یا مادی نقصان نظر آرہا ہو تو اس سرحد سے فوراً کفر کی طرف نکل بھاگے۔ جیسا کہ عموماً منافقوں کا حال ہوتا ہے۔ گویا ایسے لوگوں کا مطمح نظر صرف مادی فوائد ہوتے ہیں۔ وہ جس طرف نظر آئیں ادھر ہی لڑھک جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے خسارہ میں رہتے ہیں۔ دینی نقصان تو واضح ہے کہ ایسے لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں داخل کئے جائیں گے اور دنیوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ نہ کافر انھیں اپنا ہمدرد اور ساتھی سمجھتے ہیں اور نہ مسلمان، دونوں طرف سے ان کی ساکھ تباہ ہوجاتی ہے اور بمصداق ''دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا'' انھیں کبھی بھی پذیرائی اور عزت نصیب نہیں ہوتی۔