سورة الأنبياء - آیت 107

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ تمام دنیا کے لیے رحمت کا ظہور ہوا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٥]آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل جہاں کےلیے رحمت کیسے ہیں ؟ اس آیت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ جہان والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات اور آپ کی بعثت دراصل پوری نوع انسانی کے لئے رحمت ہے۔ آپ ہی کے ذریعہ غفلت میں پڑی ہوئی اور راہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو ایسا علم نصیب ہوا جو حق و باطل کی راہوں کو ممیز کرکے سیدھی راہ دکھلاتا اور اس پر چلاتا ہے۔ جس سے انسان نے دنیا کی زندگی اچھے طور پر گزارنے کے اصول اور ڈھنگ سیکھے۔ پھر اس راہ پر چلنے سے انسان کی اخروی زندگی بھی سنور جاتی ہے۔ آپ کی یہ مہربانی تو ان لوگوں پر تھی جو آپ پر ایمان لائے اور بدکرداروں اور کافروں کے لئے آپ کی ذات باعث رحمت تھی، چنانچہ ارشاد باری ہے﴿وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ ﴾ (۳۳:۸) یعنی جب تک آپ ان کافروں کے درمیان موجود ہیں اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں آپ ہی کی دعا کی وجہ سے خسف اور مسخ اور بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے والے عذاب موقوف ہوئے اور مسلمانوں پر آپ کی رحمت کی داستان تو اتنی طویل ہے جس کا حصر یہاں ممکن نہیں۔ قرآن نے واضح الفاظ میں بتلا دیا کہ آپ مومنوں کے حق میں رحمت بھی تھے اور رحیم بھی۔ کفار مکہ آپ کی بعثت کو اپنے لئے ایک مصیبت سمجھتے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور باپ سے بیٹے کو اور بھائی سے بھائی کو غرض سب قریبی رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کے اسی قول کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نادانو! جس ہستی کو تم مصیبت سمجھ رہے ہو۔ مسلمان تو درکنار وہ تمہارے لئے بھی اللہ کی رحمت ہے۔ کیونکہ علوم نبوت اور تہذیب و انسانیت کے جو اصول وہ پیش کر رہا ہے ان سے سب مسلم و کافر اپنے اپنے مذاق کے موافق مستفید ہو رہے ہیں۔