سورة الأنبياء - آیت 97

وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا يَا وَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (خدا کے ٹھہرائے ہوئے) سچے وعدہ کی گھڑی قریب آجائے گی، تو اس وقت اچانک ایسا ہوگا کہ لوگوں کی آنکھیں (شدت دہشت و حیرت سے) کھلی کی کھلی رہ جائیں گی، ان لوگوں کی آنکھیں جنہوں نے (سچائی سے) انکار کیا تھا (وہ پکار اٹھیں گے) افسوس ہم پر ہم اس (ہولناک گھڑی) سے غفلت میں رہے، بلکہ ہم ظلم و شرارت میں سرشار تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٧]قیامت بدترین لوگوں پر قائم ہوگی:۔ یعنی یاجوج ماجوج کی یورش کے بعد جلد ہی قیامت بپا ہوجائے گی۔ قیامت کے واقع ہونے سے پہلے سب نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائے گا۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قیامت ان لوگوں پر قائم ہوگی جو اللہ کی مخلوق سے بدترین ہوں گے۔ (مسلم، کتاب الامارت باب لاتزال طائفۃ من امتی۔۔) اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو روایت ہے اس میں شرار الخلق کے لئے بجائے شرار الناس کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی قیامت ان لوگوں پر آئے گی جو لوگوں میں سب سے بدتر ہونگے (مسلم کتاب الفتن وشرائط الساعۃ) تو یہ بدترین لوگ جب قیامت واقع ہونے کا منظر دیکھیں گے تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ اس وقت وہ حسرت و یاس سے کہیں گے کہ ہم تو بھولے ہی رہے۔ پھر خود ہی کہنے لگیں گے کہ یہ صرف بھول ہی نہیں بلکہ یہ ہماری خطا تھی کہ ہم نے پیغمبروں کی بات نہ مانی ورنہ انہوں نے تو سمجھانے میں کچھ کسر نہ چھوڑی تھی۔