سورة الأنبياء - آیت 90

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تو (دیکھو) ہم نے اس کی پکار سن لی، اسے (ایک فرزند) یحی عطا فرمایا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے تندرست کردیا، یہ تمام لوگ نیکی کی راہوں میں سرگرم تھے (ہمارے فضل سے) امید لگائے ہوئے اور (ہمارے جلال سے) ڈرتے ہوئے دعائیں مانگتے تھے اور ہمارے آگے عجز و نیاز سے جھکے ہوئے تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٠] جنت کی امیدواراور متصوفین :۔ بعض صوفی حضرات کہا کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت جنت کی توقع یا اس کے عذاب کے خوف سے کرتا ہے وہ اصلی محب نہیں ہے اور اپنے اس نظریہ کو اتنا پھیلایا کہ عوام الناس بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے : سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے او بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے حالانکہ اللہ تعالیٰ انبیاء کی یہ صفت بیان فرما رہے ہیں کہ وہ ہمیں توقع اور خوف سے پکارا کرتے تھے۔ گویا اس آیت میں ایسے متصوفین کا مکمل رد موجود ہے۔ کیونکہ انبیاء سے بڑھ کر اللہ کا محب اور کون ہوسکتا ہے؟