وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ
اور داؤد اور سلیمان (کا معاملہ بھی یاد کرو) جب وہ (ملک کے) کھیت میں کہ لوگوں کی بکریاں اس میں منتشر ہوگئی تھیں حکم چلاتے تھے اور ہم ان کی حکم فرمائی دیکھ رہے تھے۔
[٦٥] نقش کا لغوی مفہوم:۔ اس آیت میں نفش کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی رات کے وقت بکریوں کے بغیر چرواہے کے چرنے کے لئے منتشر ہونا ہے۔ (مفردات القرآن) ہوا یہ تھا کہ کچھ لوگوں کی بکریاں کسی کھیتی کو رات کے وقت چر کر اجاڑ گئی تھیں۔ کھیتی والے نے داؤد علیہ السلام کی عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ آپ نے مدعا علیہ کو بلایا تو اس نے واقعہ کا اعتراف کرلیا۔ اب از روئے انصاف و قانون پورا ہر جانہ بکریوں کے مالک پڑتا تھا۔ اس سلسلہ میں شرعی قاعدہ یا قانون درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی ایک باغ میں گھس گئی اور اسے خراب کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ دن کو باغوں کی نگہبانی باغ والوں کے ذمہ ہے۔ اور رات کو جو مویشی خراب کریں تو ان کے مالک ان کا ہر جانہ دیں۔ (مالک، ابو داؤد، ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب البیوع، باب الغصب والناریہ فصل ثانی) اجڑی کھیتی کےمتعلق سیدنا داؤد اور سلیمان کافیصلہ: ۔ اور یہی شرعی دعویٰ اس دور میں بھی تھا اب یہ اتفاق کی بات تھی کہ جتنا کھیتی کا نقصان ہوا تھا اس کی قیمت کے لگ بھگ بکریوں کی قیمت بنتی تھی۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ بکریوں والا اپنی بکریاں کھیتی والے کو دے دے۔ تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی پاس موجود تھے انہوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور کہا کہ میرے خیال میں یہ فیصلہ یوں ہونا چاہئے کہ بکریوں والا اپنی بکریاں کھیتی کو دے دے مگر یہ بکریاں کھیتی والے کے پاس بطور رہن ہوں گی۔ کھیتی والا ان کی پرورش بھی کرے اور ان سے دودھ اور اون وغیرہ کے فوائد بھی حاصل کرے۔ اور اس دوران بکریوں والا کھیتی کی نگہداشت کرکے اور اس کی آبپاشی کرے تاآنکہ وہ کھیتی اپنی پہلی سی حالت پر آجائے اور جب کھیتی پہلی حالت پر آجائے تو بکریوں والے کو اس کی بکریاں واپس کردی جائیں۔ اس فیصلہ سے کھیتی والے کے نقصان کی بھی تلافی ہوجاتی تھی اور بکریوں والے کا بھی کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا سلیمان علیہ السلام کے اس فیصلہ کو حضرت داؤد علیہ السلام نے بھی درست تسلیم کیا اور اپنے فیصلہ سے رجوع کرلیا۔ یہی وہ فیصلہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ سلیمان علیہ السلام کو ہم نے سمجھایا تھا۔