سورة الأنبياء - آیت 44

بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اصل یہ ہے کہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو (فوائد زندگی سے) بہرہ ور ہونے کے موقع دیے یہاں تک کہ (خوشحالیوں کی سرشاری میں) ان کی بڑی بڑی عمریں گزر گئیں (اور اب غفلت ان کی رگ رگ میں رچ گئی ہے) مگر کیا یہ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو چاروں طرف سے ان پر تنگ کرتے ہوئے چلے آرہے ہیں؟ پھر کیا وہ (اس مقابلہ میں) غالب ہورہے ہیں؟

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٩] خوشحالی انسان کو اللہ سےغافل کردیتی ہے :۔ یعنی ان قریش مکہ کی حالت یہ ہے کہ ایک طویل مدت سے ان پر سختی کا کوئی دور نہیں آیا۔ کعبہ کی تولیت کی بنا پر ان کی عرب بھر میں عزت ہے۔ ان کے تجارتی قافلوں پر کوئی بھی قبیلہ ڈاکہ ڈالنے کی جرأت نہیں کرتا۔ بلکہ جس قافلے کو یہ لوگ پروانہ راہداری دے دیں۔ وہ بھی لوٹ مار سے محفوظ و مامون ہوجاتا ہے۔ سردی اور گرمی کے تجارتی سفروں کی بنا پر بہت دولت کما رہے ہیں اور آسودہ حال ہیں۔ اسی آسودہ حالی نے انھیں اللہ اور اس کی یاد سے غافل بنا دیا ہے۔ اب ان کے دماغ اس وقت تک درست نہیں ہوسکتے جب تک یہ اللہ کے عذاب کا مزا نہ چکھ لیں۔ [٤٠] زمین کو گھٹانے کامطلب :۔یہ لوگ بچشم خود دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کو روکنے کی ان کی ساری تدبیروں اور کوششوں کے باوجود اسلام دن بدن بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے اور جوں جوں اسلام پھیل رہا ہے ان پر از خود عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے اور ان کی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس علاقہ میں اسلام آگیا وہاں سے کفر رخصت ہوا اور کفر کی سرزمین گھٹ گئی۔ اور یہ سلسلہ بدستور جاری رہے گا کفر کا علاقہ یا سرزمین گھٹتی، سمٹتی اور سکڑتی جائے گی اور اسلام کی سرزمین برھتی جائے گی۔ جس کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود کیا اب بھی وہ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ وہ اسلام کو دبا لینے میں کامیاب ہوجائیں گے اور بالآخر انھیں کا بول بالا رہے گا ؟