أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
(اے پیغمبر) کیا تم نے اس واقعہ پر غور نہیں کیا جو موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سردروں کو پیش آیا تھا؟ بنی اسرائیل کے سرداروں نے اپنے عہد کے نبی سے درخواست کی تھی کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے۔ ہمارے لیے ایک حکمراں مقرر کردو۔ نبی نے کہا (مجھے امید نہیں کہ تم ایسا کرسکو) اگر تمہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو کچھ بعید نہیں تم لڑنے سے انکار کردو۔ سرداروں نے کہا ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم اپنے گھروں سے نکالے جا چکے ہیں اور اپنی اولاد سے علیحدہ ہوچکے ہیں، لیکن پھر دیکھو جب ایسا ہوا کہ انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو (ان کی ساری گرم جوشیاں ٹھنڈی پڑگئیں، اور) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب نے پیٹھ دکھلا دی۔ اور اللہ نافرمانوں (کے دلوں کے کھوٹ) سے بے خبر نہیں ہے
[٣٤٣]بنی اسرائیل میں سیادت انبیاء یعنی نظام خلافت :۔ بنی اسرائیل میں یہ دستور رہا ہے کہ ان کے حکمران بھی انبیاء ہی ہوا کرتے تھے۔ انہیں کے پاس مقدمات کے فیصلے ہوتے اور انہیں کی سر کردگی میں جہاد کیا جاتا تھا۔ گویا ان لوگوں میں صحیح نظام خلافت رائج تھا اور یہی وہ سیاسی نظام ہے جو اسلام کا جزولاینفک ہے۔ مگر ان لوگوں نے دوسرے ممالک کی دیکھا دیکھی جن میں نظام ملوکیت رائج تھا۔ اپنے بوڑھے نبی سموئیل علیہ السلام سے مطالبہ کردیا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اس کی قیادت میں جہاد کریں اور حقیقتاً ان کا یہ مطالبہ محض جہاد سے راہ فرار کی ایک صورت تھی جو ان کی بزدلی پر دلالت کرتی تھی۔ جسے انہوں نے اس رنگ میں پیش کیا کہ تم تو بوڑھے ہوگئے اور ہمیں ایک نوجوان قائد درکار ہے اور قائدان کی مادہ پرست نظروں میں وہی ہوسکتا تھا جو بادشاہوں کی طرح کا ٹھاٹھ باٹھ رکھتا ہو۔ [٣٤٤] ان کے نبی سموئیل کو چونکہ اصل مرض کا علم تھا۔ لہٰذا اس نے ان سے پختہ عہد لیا کہ اگر بادشاہ مقرر کردیا جائے تو پھر تو جہاد سے راہ فرار اختیار نہ کرو گے؟ جس کے جواب میں انہوں نے یقین دلایا کہ ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے اور کر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ ہم پہلے ہی بے گھر ہوچکے ہیں۔ دشمنوں نے ہمارے ملک چھین لیے، ہمارے بیوی بچوں کو لونڈی غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا ہم کیوں نہ ان سے لڑیں گے۔ لیکن اس کے باوجود جب ان پر جہاد فرض ہوا تو مختلف حیلوں بہانوں اور کٹ حجتیوں سے اپنے کئے ہوئے عہد سے پھرنے لگے۔