سورة الأنبياء - آیت 35

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہر جان کے لیے موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں (زندگی کی) اچھی بری حالتوں کی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں تاکہ تمہارے لیے (یعنی تمہاری سعی و طلب کے لیے) آزمائشیں ہوں، اور پھر (بالآخر) تم سب کو ہماری طرف لوٹنا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٣] فتنہ کامفہوم :۔ فتنہ سے مراد ایسی آزمائش ہے جس کا انسان کو پتہ بھی نہ چلے اور وہ اندر ہی اندر اپنا کام کئے جارہی ہو۔ جیسے مال اور اولاد اور دوسری مرغوبات کی محبت انسان کے لئے فتنہ ثابت ہوتی ہے۔ اس آیت میں خیر سے مراد مالی دولت کی فراوانی اور خوشحالی کا زمانہ ہے اور شر سے مراد تنگ دستی اور بدحالی کا دور۔ اور اللہ تعالیٰ ہر حال میں ہی انسان کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔ ایک مومن تو خوشحالی کے اوقات میں اللہ کا شکر ادا کرکے اور تنگ دستی کے دور میں مصائب پر صبر کرکے اس آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دنیوی اور اخروی انعامات کا مستحق بن جاتا ہے۔ لیکن ایک دنیا دار پر جب مال و دولت کی فراوانی اور خوشحالی کا دور آتا ہے تو اس کا دماغ ہی درست نہیں رہتا اور اس میں فرعونیت اور تکبر آجاتا ہے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے اور اگر برے دن آجائیں تو صبر کرنے کی بجائے کفر و شرک راہوں پر جا پڑتا ہے اور در در پر اپنی ناک رگڑنے لگتا ہے۔ اس طرح وہ دنیا و آخرت میں اللہ کے غضب کا مستحق بن جاتا ہے۔