سورة الأنبياء - آیت 31

وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ بنا دیئے کہ ایک طرف کو ان کے ساتھ جھک نہ پڑے اور ہم نے ان میں (یعنی پہاڑوں میں) ایسے درے بنا دیے کہ راستوں کا کام دیتے ہیں، تاکہ لوگ اپنی منزل مقصود پالیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٧] اس جملہ کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ نحل کی آیت نمبر ١٥ کا حاشیہ۔ [٢٨]آغاز کائنات :۔ یعنی پہاڑ پیدا کئے۔ پھر ان میں وادیاں اور ندی نالے بن گئے۔ انھیں ندی نالوں سے نشیب و فراز کو معلوم کرکے انسان کو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک پہنچنے کے لئے راستوں کی نشاندہی ہوتی گئی۔ پھر اس زمین میں اور کئی طرح کی علامات پیدا کردیں۔ کہیں گھاٹیاں ہیں، کہیں چھوٹے پہاڑ، کہیں درے، کہیں بڑے بڑے پہاڑ اور ندی نالے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کی ساخت بھی ایسی بنا دی ہے کہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک پہنچنے کی راہ بن جاتی ہے یا بنائی جاسکتی ہے۔ [٢٩] اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک تو واضح ہے کہ زمین میں چلنے پھرنے کے لئے راہ پالیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ان نشانیوں میں غور و فکر کرکے اللہ کی معرفت اور حقیقت حال معلوم کرسکیں۔