سورة البقرة - آیت 245

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کون ہے جو (انسان کی جگہ خدا سے معاملہ کرتا ہے اور) خدا کو خوش دلی کے ساتھ قرض دیتا ہے تاکہ خدا اس کا قرض دو گنا سہ گنا زیادہ کرکے ادا کردے؟ (یعنی مال حقیر راہ حق میں خرچ کرکے دین و دنیا کی بے شمار برکتیں اور سعادتیں حاصل کرلے؟ اور (باقی رہا تنگ دستی کا خوف جس کی وجہ سے جس کی وجہ سے تمہارا ہاتھ رک جاتا ہے تو یاد رکھو) تنگی اور کشائش دونوں کا رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے اور اسی کے حضور تم سب کو لوٹنا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٤٢] قرض حسنہ کےا جر میں اضافہ کی شرائط :۔قرض حسنہ سے مراد ایسا قرضہ ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے فقراء اور اقربا و مساکین کو دیا جائے اور ادائیگی کے لیے انہیں تنگ نہ کیا جائے، نہ ہی قرضہ دینے کے بعد انہیں جتلایا جائے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی بیگار لی جائے اور اگر مقروض فی الواقعہ تنگ دست اور ادائیگی سے معذور ہو تو اسے معاف ہی کردیا جائے اور اللہ کو قرض حسنہ دینے کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔ جس میں انفاق فی سبیل اللہ کی تمام صورتیں آ جاتی ہیں اور اس میں جہاد کی تیاری پر خرچ کرنا اور مجاہدین کی مالی امداد بھی شامل ہے اور مضمون کی مناسبت سے یہاں یہی صورت درست معلوم ہوتی ہے۔ ایسے قرضہ کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک بڑھا دیتے ہیں اور اس بڑھوتی کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ دل کی پوری خوشی کے ساتھ دیا جائے۔ نیز ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ خرچ کرنے سے تمہیں مال میں کمی آ جانے سے نہ ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ مال میں کمی بیشی ہونا تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور قرآن میں ہی ایک دوسرے مقام پر (٣٤ : ٣٩) فرمایا کہ جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا کر دے گا۔