سورة طه - آیت 129

وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُّسَمًّى

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) اگر ایسا نہ ہوتا کہ پہلے سے تیرے پروردگار نے (اس بارے میں) ایک بات ٹھہرا دی ہوتی (یعنی ایک قانون ٹھہرا دیا ہوتا) تو اسی گھڑی ان پر (جرم کا) الزام لگ جاتا اور مقررہ وقت نمودار ہوجاتا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٣ـ۔الف ] قانون امہال وتدریج کی مصلحتیں :۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں تدریج و امہال کا قانون کام کرتا ہے۔ ان پر عذاب الٰہی کے نزول میں بھی وہی قانون کارفرما ہے۔ اور اس قاعدہ میں بہت سی مصلحتیں مضمر ہوتی ہیں۔ یعنی جس طرح جو کام کے سرانجام پانے کے لئے ایک مقررہ مدت درکار ہوتی ہے۔ اسی طرح عذاب الٰہی کا بھی وقت مقرر ہے۔ جس کی چند شرائط ہیں۔ اور اگر یہ قانون جاری و ساری نہ ہوتا تو ان کے اعمال واقعی اس قابل ہیں کہ انھیں فوری طور پر تباہ و برباد کردیا جاتا۔ اس قانونی تدریج و امہال میں کیا مصلحتیں ہیں اور اگر اس قانون کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس میں کیا نقصانات ہیں، ان کا ذکر پہلے حواشی میں کیا جاچکا ہے۔ لہٰذا اب تکرار کی ضرورت نہیں۔