حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
اور (دیکھو) اپنی نمازوں کی حفاظت میں کوشاں رہو۔ خصوصاً ایسی نماز کی جو (اپنے ظاہر و باطن میں) بہترین نماز ہو اور اللہ کے حضور کھڑے ہو کہ ادب و نیاز میں ڈوبے ہوئے ہو
[٣٣٢] عائلی مسائل کے درمیان نماز کی تاکید سے متعلق جو دو آیات آ گئی ہیں تو ان کی غالباً حکمت یہ ہے کہ ایسے معاشرتی مسائل کو بحسن و خوبی سر انجام دینے کے لیے جس تقویٰ کی ضرورت ہوتی ہے نماز اس سلسلہ میں موثر کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے نمازوں کی محافظت کی تاکید کی جا رہی ہے یعنی ہر نماز کو اس کے وقت پر اور پوری شرائط و آداب کے ساتھ ادا کیا جائے۔ [٣٣٣]نمازوسطیٰ سےمراد نماز عصر ہےا ور اس کی تاکید مزید:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خندق کے دن فرمایا۔ ان کافروں نے مجھے درمیانی نماز نہ پڑھنے دی حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔ اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صلوٰۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کی عصر کی نماز قضا ہوگئی اس کا گھر بار، مال و اسباب سب لٹ گیا۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب إثم من فاتتہ العصر) اور بالخصوص اس نماز کی تاکید اس لیے فرمائی کہ دنیوی مشاغل کے لحاظ سے یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے۔ [٣٣٤] نمازمیں بادب کھڑاہونےکاحکم :۔ یعنی اللہ کے حضور عاجزی اور ادب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ نیز ایسی کوئی فضول حرکت نہ کی جائے جو ادب کے خلاف ہو یا نماز کو توڑ ڈالنے والی ہو جیسے خواہ مخواہ یا عادتاً ہاتھوں کو حرکت دینا، ہلاتے رہنا یا ہنسنا یا بات چیت کرلینا وغیرہ۔ چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نماز میں باتیں کرلیا کرتے تھے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے بعد ہمیں حکم دیا گیا کہ چپ چاپ سکون سے کھڑے ہوں اور باتیں کرنے سے بھی منع کردیا گیا (مسلم، کتاب المساجد۔ باب تحریم الکلام فی الصلوۃ) ٢۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تو نماز کے آخر میں دائیں بائیں السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارے کرتے ہو۔ جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں اتنا ہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہہ لیا کرو۔ (مسلم: کتاب الصلٰوۃ، باب الأمر بالسکون فی الصلوۃ والنھی عن الاشارۃ بالید.....) صف درست کرنے اور مل کر کھڑا ہونے کاحکم:۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تم لوگ نماز میں کوئی حرکت نہ کیا کرو۔ پھر آپ نے ایک دفعہ حلقہ باندھے دیکھ کر فرمایا تم لوگ الگ کیوں ہو؟ پھر ایک مرتبہ آپ نے فرمایا صفیں اس طرح باندھا کرو۔ جیسے فرشتے بارگاہ الٰہی میں صف بستہ رہتے ہیں۔ سب سے پہلے اگلی صف پوری کیا کرو۔ اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو۔ (مسلم حوالہ ایضاً) البتہ کچھ کام ایسے ہیں جو حالت نماز میں بھی سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً : ١۔ اگر امام بھول جائے تو مقتدی سبحان اللہ کہہ سکتے ہیں اور اگر مقتدی عورت ہو تو وہ تالی بجا سکتی ہے۔ (بخاری۔ تصفیق النسائ) ٢۔ اگر قراءت کرتے ہوئے امام بھول جائے تو مقتدی بتلا سکتا یعنی لقمہ دے سکتا ہے۔ نمازکے دوران کون کون سے کام کرناجائز یاضروری ہیں:۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں صلح کرانے گئے۔ ظہر کا وقت ہوگیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانا شروع کردی۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پہنچ گئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں آ کھڑے ہوئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تالی بجائی جس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور پیچھے کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلی صف میں کھڑے تھے۔ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھاتے رہنے کا اشارہ کیا۔ لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ پھر نماز کے بعد فرمایا کہ تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے، مرد سبحان اللہ کہا کریں۔ (بخاری) ٤۔ اگر گرمی کی وجہ سے زمین تپ رہی ہو تو نمازی اپنے سجدہ کی جگہ پر کپڑا بچھا سکتا ہے۔ (بخاری حوالہ ایضاً) ٥۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رات کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے اور میں اپنے پاؤں لمبے کئے ہوتی تو سجدہ کے وقت آپ مجھے ہاتھ لگاتے تو میں پاؤں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو میں پاؤں لمبے کرلیتی۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ٦۔ ایک دفعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی خالہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات رہے۔ انہی کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آدھی رات کو اٹھے، وضو کیا اور نماز میں کھڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جا کر بائیں طرف کھڑے ہو کر نماز میں شامل ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سر پر ہاتھ رکھا، پھر دائیں کان کو مروڑا۔ پھر انہیں پکڑ کر پیچھے کی طرف سے اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب اذا قام الرجل عن یسار الامام۔۔۔۔ الخ) ٧۔ اگر نفلی نماز کے دوران والدہ یا والد پکارے تو نماز توڑ کر بھی ان کی بات سننا چاہیے (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ انفال کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ) ٨۔ ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ ہم اہواز میں خارجیوں سے جنگ میں مصروف تھے کہ ایک صحابی ابو برزہ اسلمی اپنی گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں سنبھالے نماز پڑھنے لگے۔ گھوڑا لگام کھینچنے لگا اور ابو برزہ بھی ساتھ ساتھ پیچھے چلتے گئے۔ یہ دیکھ کر ایک خارجی کہنے لگا۔ یا اللہ بوڑھے کا ستیا ناس کر۔ جب ابو برزہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس خارجی سے کہا کہ میں نے تمہاری بات سن لی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ سات آٹھ جہاد کئے ہیں اور میں نے دیکھا کہ آپ لوگوں پر آسانی کیا کرتے تھے اور مجھے یہ اچھا معلوم ہوا کہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں، نہ کہ اس کو چھوڑ دوں کہ وہ جہاں چلا جائے اور میں مصیبت میں پڑجاؤں۔ (بخاری، حوالہ ایضاً) ٩۔دین میں آسانی کی ایک مثال:۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے لمبا کروں، پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بچے کے رونے سے ماں کے دل پر کیسی چوٹ پڑتی ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاذان۔ باب من اخف الصلوۃ عند بکاء الصبی) ١٠۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس اس حال میں آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاص (حضرت زینب کی بیٹی) کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھنا شروع کی جب رکوع کرتے تو امامہ کو زمین پر بٹھلا دیتے اور جب سجدہ سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اسے اپنے کندھے پر بٹھا لیتے۔ (بخاری : کتاب الادب، باب رحمہ الولد و تقبیلہ ومعانقتہ) اور ایک دوسری روایت میں رکوع کے علاوہ سجدہ کا لفظ آیا ہے (بخاری : کتاب الصلوة، باب حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلوۃ)