وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اور جب ایسا ہوا کہ تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دے اور ان کی (عدت کی) مدت پوری ہونے کو آئے تو پھر (تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو (طلاق سے رجوع کرکے) انہیں ٹھیک طریقے پر روک لو، یا (آخری طلاق دے کر) ٹھیک طریقے پر جانے دو۔ ایسا نہ کرو کہ انہیں نقصان پنچانے کے لیے روکے رکھو، تاکہ ان پر جور و ستم کرو (یعنی نہ تو رجوع کرو۔ نہ جانے دو۔ بیچ میں لٹکائے رکھو) اور یاد رکھو جو کوئی ایسا کرے گا تو اپنے ہاتھوں خود اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور دیکھو، ایسا نہ کرو کہ اللہ کے حکموں کو ہنسی کھیل بنا لو ( کہ آج نکاح کیا۔ کل بلاوجہ طلاق دے دی) اللہ کا اپنے اوپر احسان یاد کرو۔ اس نے کتاب و حکمت میں جو کچھ نازل کیا ہے اور اس کے ذریعے تمہیں نصیحت کرتا ہے، اسے نہ بھولو، اور اللہ سے ڈرو، اور یاد رکھو کہ اس کے علم سے کوئی بات باہر نہیں۔
[٣١٣] یہاں اس معاشرتی برائی کا بیان ہے۔ جس کا ذکر پہلے آیت نمبر ٢٢٩ کے حاشیہ نمبر ١ میں کردیا گیا ہے۔ یعنی جب تم ایک یا دو طلاقیں دے چکو پھر ان کی عدت پوری ہونے کو آئے تو اس وقت تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ خلوص نیت سے ان سے رجوع کرو اس ارادہ سے کہ آئندہ اسے درست طور پر بسانا ہے یا پھر انہیں کچھ دے دلا کر شریفانہ طور پر رخصت کرو۔ اور اگر تم نے رجوع کر کے انہیں تنگ کرنے، ستانے اور ان پر زیادتی کرنے کی روش اختیار کی تو یاد رکھو اس ظلم و زیادتی کا وبال تمہیں اللہ کے ہاں بھگتنا پڑے گا۔ [٣١٤] اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کی صورتیں :۔ مذاق اڑانے کا مطلب یہ ہے کہ طرح طرح کی حیلہ سازیوں سے اللہ تعالیٰ کی آیات اور احکام کا ایسا مطلب نکالا جائے جو اس کے واضح مفہوم اور اس کی روح کے منافی ہو اور ایسا مذاق اڑانے کی واضح مثال نکاح حلالہ ہے اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک شخص نے اپنی عورت کو بیک وقت تین طلاقیں دے دیں۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو غصہ کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری زندگی میں اللہ کے احکام سے یوں کھیلا جانے لگا ہے۔ جب کہ ابھی میں تم میں موجود ہوں۔ (نسائی، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث المتفرقة) اس طرح تو اپنی اغراض کی خاطر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم سے اس کی اصل روح کو فنا کر کے اسے الفاظ کی قید میں مقید کر کے اور فقہی موشگافیاں پیدا کر کے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے اور اسی بات پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرمائی ہے کہ اللہ نے ان احکام میں جو حکمتیں اور مصلحتیں رکھی ہیں۔ ان احکام کا مذاق اڑا کر ان کا ستیاناس ہی نہ کردینا اور اس سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔