وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ
میں نے تجھے (اپنی رسالت کے لیے) چن لیا ہے، پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اسے کان لگا کر سن۔
[١٠] موسیٰ علیہ السلام کا اتفاقا طوی وادی میں پہنچنا :۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک درخت میں آگ بھڑک رہی ہے۔ پاس نہ کوئی آدم ہے نہ آدم زاد۔ آگ جوں جوں بھڑکتی ہے درخت مزید سرسبز ہوجاتا ہے۔ اس عجیب نظارہ کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اس میں ایک آواز آئی کہ ’’اے موسیٰ ! میں تمہارا پروردگار تم سے ہم کلام ہو رہا ہوں۔ تم اس وقت طویٰ کے مقدس میدان میں پہنچ چکے ہو۔ لہٰذا اپنے جوتے اتار لو۔‘‘ اس آواز کی کیفیت یہ تھی کہ یہ معلوم ہی نہ ہوسکتا تھا کہ کس سمت سے آواز آرہی ہے۔ دائیں سے آرہی ہے یا بائیں سے آگے سے یا پیچھے سے، اوپر سے یا نیچے سے۔ لہٰذا موسیٰ علیہ السلام پس آواز کو سننے کے لئے ہمہ تن گوش بن گئے۔ اس آواز نے پہلے جملہ میں اپنا تعارف کرایا۔ دوسرے جملے میں یہ بتلایا کہ تم جو راہ بھول چکے تھے تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے اس وقت تم طویٰ کے صاف ستھرے میدان میں کھڑے ہو اور یہاں پہنچنے کے لئے ہی تم راہ بھولے تھے۔ تیسرے جملہ میں یہ ہدایت دی کہ اپنے جوتے اتار لو۔ ممکن ہے کہ آپ کے جوتوں کو راستہ میں کچھ گندگی اور آلائش لگ گئی ہو۔ ورنہ جوتے اگر نئے یا صاف ستھرے ہوں تو جوتوں سمیت مسجد تک جانا تو درکنار نماز ادا کرنا بھی جائز ہے۔ تاہم ادب کا تقاضا یہی ہے کہ کسی مقدس مقام میں داخل ہوتے وقت اتار لئے جائیں۔