سورة طه - آیت 10

إِذْ رَأَىٰ نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب اس نے (دور سے) آگ دیکھی تو اپنے گھر کے لوگوں سے کہا، ٹھہرو، مجھے آگا دکھائی دی ہے، میں جاتا ہوں ممکن ہے تمہارے لیے ایک انگارا لے آؤں یا (کم از کم) الاؤ پر کوئی راہ دکھانے والا ہی مل جائے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩] سیدنا موسیٰ کا آگ لینے کے لئے جانا :۔ اس قصہ کا آغاز اس وقت سے کیا جارہا ہے جب موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی تھی۔ آٹھ دس سال آپ مدین میں شعیب علیہ السلام کے پاس رہے وہاں آپ کا نکاح شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے ہوا تھا۔ طے شدہ مدت گزارنے کے بعد آپ کو خیال آیا کہ آپ اپنے آبائی وطن مصر کی طرف چلنا چاہئے۔ دوران سفر آپ کو رات آگئی۔ شدید سردی کا موسم تھا۔ بیوی ساتھ تھی اور وہ حاملہ تھی۔ سخت اندھیرا تھا لہٰذا آپ راستہ بھی بھول گئے اور کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کریں۔ سخت پریشانی کا عالم تھا۔ اتنے میں آپ کو دور کہیں سے آگ دکھائی دی۔ جو اس بات کی علامت تھی کہ ضرور وہاں کوئی آدمی بھی موجود ہوگا۔ چنانچہ آپ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم تو یہیں ٹھہرو، میں وہاں آگ والوں کے پاس جاتا ہوں۔ تاکہ ان لوگوں سے راہ کا اتا پتا پوچھ سکوں دوسرے کچھ آگ کے انگارے بھی لیتا آؤں گا۔ تاکہ تم آگ سینک سکو۔