سورة مريم - آیت 35

مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ ۖ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ کے لیے کبھی یہ بات نہیں ہوسکتی کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ اس کے لیے پاکی ہو، (وہ کیوں مجبور ہونے لگا کہ کسی فانی ہستی کو اپنا بیٹا بنائے؟) اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کوئی کام کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو بس حکم کرتا ہے کہ ہوجا، اور اس کا حکم کرنا ہی ہوجاتا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٢] اللہ کو بیٹے یا کسی مددگار کی قطعاً ضرورت نہیں :۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کو بیٹا بنانے کی قطعا ً ضرورت نہیں ہے، کیونکہ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی یہ کارخانہ کائنات ٹھیک طرح چل رہا تھا تو پھر بیٹا بنانے کی ضرورت کہاں سے آگئی؟ علاوہ ازیں ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کی شان کے شایان بھی نہیں ہیں وہ اس قسم کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے بالاتر اور پاک ہے نیز جب اس کے سارے کام فقط کن کا حکم دینے سے ہوجاتے ہیں۔ فورا ً اسباب و وسائل مہیا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ چیز ہو کے رہتی ہے تو پھر اسے کسی کو بیٹا یا شریک بنانے کی ضرورت بھی کیا ہے؟