سورة الإسراء - آیت 70

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور البتہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور خشی اور تری دونوں کی قوتیں اس کے تابع کردیں کہ اسے اٹھائے پھرتی ہیں اور اچھی چیزیں اس کی روزی کے لیے مہیا کردیں نیز جو مخلوقات ہم نے پیدا کی ہیں ان میں سے اکثر پر اسے برتری دے دی، پوری برتری جیسی کہ ہونی چاہیے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٨] انسان اشرف المخلوقات کیسے ہے؟ انسان کی دوسری تمام مخلوق پر فضیلت اور تکریم یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا جو سیدھا کھڑا ہو کر چلتا ہے پھر جس قدر توازن و اعتدال انسانی جسم میں ہے اور جس قدر اس کے اعضاء جسم کثیر المقاصد ہیں اتنے کسی دوسری کے نہیں۔ مخلوق میں سب سے برتر اللہ کے فرشتے تھے۔ اللہ نے ان سے بھی آدم کو سجدہ کروایا اور اس طرح سب مخلوق پر واضح کردیا کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے۔ پھر انسان کا بچہ جو باقی تمام جانوروں کے بچوں سے کمزور پیدا ہوتا ہے اسے اتنی عقل عطا کی کہ وہ دنیا جہاں کی چیزوں کو اپنے کام میں لائے۔ بڑے بڑے جسیم اور طاقتور جانوروں کو رام کرکے ان پر سواری کرے۔ دریاؤں اور سمندروں میں کشتیاں اور جہاز چلا کر سمندر کی پیٹھ پر سوار ہو۔ تمام مخلوق کے مقابلہ میں کھانے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ، لذیذ سے لذیذ اور صاف ستھرے کھانے اپنی خوراک کے لیے تیار کرے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس اور رہائش کے لیے مکان تعمیر کرے۔ یعنی جتنا اقتدار و اختیار اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے اتنا دوسری کسی مخلوق کو عطا نہیں کیا گیا اور یہ سب کچھ یقیناً اللہ ہی کی بخشش اور اس کا کرم ہے پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور ضلالت اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں ایسے بلند مرتبہ پر فائز ہو کر اللہ کے سوائے اس کی دوسری مخلوق کے سامنے سرجھکانے لگے؟ یا اپنے ہی جیسے کسی محتاج بندے کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے لگے؟