سورة الإسراء - آیت 59

وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (جو نشانیاں منکر طلب کرتے ہیں، ان) نشانیوں کے بھیجنے سے ہمیں کون روک سکتا ہے؟ مگر یہ کہ ہم جانتے ہیں پھچلے عہد کے لوگ ایسی ہی نشانیاں جھٹلا چکے ہیں، ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی دی کہ ایک آشکار انسانی تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا (اور نشانی سے عبرت نہ پکڑی) اور ہم نشانیاں تو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ لوگ (انکار و سرکشی کے نتائج سے) ڈریں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٣] یعنی جب ضدی اور ہٹ دھرم لوگ کوئی حسی معجزہ یا اپنا فرمائشی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے تو اس صورت میں ان پر عذاب الٰہی کا نزول لازم ہوجاتا ہے۔ مگر چونکہ ہم مکہ کے رہنے والوں کو ایسے عذاب سے ہلاک نہیں کرنا چاہتے۔ اور ان کے زندہ رہنے اور رکھنے میں بہت سی حکمتیں مضمر ہیں لہٰذا انھیں ان کا فرمائشی معجزہ نہ دینے میں ہی مصلحت اور ان کی عافیت ہے۔ [٧٤] معجزہ دکھانے کا مقصد محض خوف دلانا ہوتا ہے :۔ قوم ثمود کے حالات ان کے سامنے ہیں۔ انہوں نے فرمائشی اور حسی معجزہ طلب کیا تھا۔ یہ معجزہ دیکھنے کے باوجود وہ ایمان نہ لائے۔ تو اس کے نتیجہ میں انھیں تباہ کردیا گیا۔ حالانکہ فرمائشی معجزہ کو پورا کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ پر زبردست دلیل ہے۔ پھر ایسا معجزہ دیکھ کر بھی جو ایمان نہ لائے اور اس کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا نہ ہو تو ایسے لوگوں کا علاج یہی ہے کہ انھیں کسی دردناک عذاب سے تباہ کر ڈالا جائے۔