سورة الإسراء - آیت 53

وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) میرے بندوں سے کہہ دو (یعنی ان سے جو دعوت حق پر ایمان لائے ہیں، مخالفوں سے گفتگو کرتے ہوئے) جو بات کہو ایسی کہو کہ خوبی کی بات ہو، شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے، یقینا شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٤] داعی کو تلخ کلامی سے پرہیز ضروری ہے :۔ ہر شخص کو چاہیے کہ خطاب کے وقت اس کے لہجہ میں نرمی اور الفاظ میں شیرینی ہونی چاہیے تند و تیز اور غصہ والے لہجہ یا تلخ الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے خواہ یہ خطاب باہمی گفتگو کے سلسلہ میں ہو یا دعوت دین کے سلسلہ میں۔ کیونکہ لہجہ یا الفاظ میں درستی سے مخاطب کے دل میں ضد اور عداوت پیدا ہوتی ہے اور اس سے دعوت دین کا کام یا اصلاح احوال کا کام پیچھے جا پڑتا ہے۔ [٦٥] اور شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ تمہاری آپس میں منافرت، ضد اور دشمنی پیدا ہو اور دعوت و تبلیغ کا کام رک جائے۔ لہٰذا خطاب کے وقت خصوصی احتیاط کرو۔ اور تم غصہ میں آگئے یا تلخ لہجہ یا سخت الفاظ کہناشروع کردیئے تو سمجھ لو کہ تم شیطان کی چال میں آگئے۔ اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کے بتوں یا معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر ضد میں آکر جوابی کارروائی کے طور پر اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں۔ (٦: ١٠٨)