سورة الإسراء - آیت 46

وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَىٰ أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف ڈال دیے کہ سمجھ کام نہیں دیتی اور کانوں میں گرانی کہ کچھ سنائی نہیں دیتا، جب تو قرآن میں تن تنہا صرف اپنے پروردگار کا ذکر کرتا ہے (اور یہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کا ذکر نہیں پاتے) تو پیٹھ پھیر کے بھاگنے لگتے ہیں، نفرت میں بھرے ہوئے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٥] یہ چھپا ہوا پردہ اور دلوں پر پڑا ہوا پردہ ہونا یا ان کا ایسا محفوظ ہونا کہ کوئی بیرونی چیز ان پراثر نہ کرسکے اور کانوں کی ثقل سماعت ہونا۔ یہ سب باتیں قریش مکہ نے خود ہی بڑے فخر سے اپنے متعلق کہی تھیں۔ جیسا کہ یہی باتیں سورۃ حم السجدہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی یہی کچھ چاہتے تھے لہٰذا اللہ نے انھیں ویسا ہی بنا دیا۔ قریشی سرداروں نے مسلمانوں کے علاوہ اپنے آپ پر بھی پابندی لگا رکھی تھی کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو اسے کوئی بھی نہ سنے لیکن وہ خود بھی اپنی اس عائد کردہ پابندی کو نبھا نہ سکے۔ تاہم مخالفت میں پہلے سے بھی بڑھتے گئے۔ [٥٦] مشرکوں کی توحید سے نفرت کی ایک نشانی :۔ کیونکہ اکیلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے ان کے معبودوں کی از خود نفی ہوجاتی تھی جسے وہ صرف اپنے معبودوں کی ہی توہین نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی اور اپنے آباء و اجداد کی بھی توہین سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے معبودوں کی نفی کرنے یا انھیں بالکل بے اختیار کہنے کا صاف مطلب یہ نکلتا تھا کہ یہ سرداران قریش اور ان کے آباء و اجداد سب کے سب بے وقوف ہی تھے جو ان کو بااختیار سمجھ کر ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے۔ لہٰذا اکیلے اللہ کا ذکر سنتے تو غصہ اور نفرت کی بنا پر وہاں سے بھاگ اٹھتے۔ اور یہ بات کچھ دور نبوی کے مکہ سے مخصوص نہیں۔ آج کل کے مشرکوں کا بھی یہی حال ہے۔ آپ ان حضرات کے خطبات جمعہ اور تقریریں وغیرہ سنیں تو ان کا اکثر حصہ ان کے اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی کرامات اور تصرفات کا ذکر آئے گا۔ ابتدا میں رسمی طور پر تبرکاً کوئی آیت ضرور پڑھ لی جاتی ہے۔ لیکن بعد کی تقریر بس ان بزرگوں کی مدح و ثناء اور کرامات وغیرہ بیان کی جاتی ہیں اور ان کے پیرو کار پسند بھی ایسی ہی تقریر کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں اور درمیان میں اللہ کا ذکر آجائے تو اسے بھی گوارا ہونے کی حد تک برداشت کرلیتے ہیں لیکن اگر صرف توحید باری تعالیٰ کا بیان ہو تو اس بیکیف اور کئی بار سنی ہوئی تقریر سے ان کی طبیعت بور ہوجاتی ہے۔ اور خطبہ جمعہ کے علاوہ کسی جلسہ وغیرہ میں تقریر ہو رہی ہو تو اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔