وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا
اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے قتل کرنا اللہ نے حرام ٹھہرا دیا ہے، جو کوئی ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کے مطالبہ کا) اختیار دے دے یا، پس چاہیے کہ خونریزی میں زیادتی نہ کرے (یعنی حق سے زیادہ بدلہ لینے کا قصد نہ کرے) وہ (حد کے اندر رہنے میں) فتح مند ہے۔
[٣٨] قتل بالحق اور بغیر الحق کی صورتیں :۔ قتل کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انفرادی طور پر کسی شخص کو کبھی بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اٹھ کر کسی کو قتل کر دے۔ الا یہ کہ کوئی ڈاکو وغیرہ اس پر حملہ آور ہو اور وہ اپنی مدافعت کرے جس میں ڈاکو مارا جائے۔ حتیٰ کہ انسان خود کشی بھی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس کی اپنی جان کا بھی وہ خود مالک نہیں ہے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے بلکہ خود کشی بھی ایسا ہی جرم ہے جیسے کسی دوسرے شخص کو قتل کرنا۔ اسی طرح اپنی اولاد کو قتل کرنا بھی، خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو، جرم عظیم ہے۔ قصاص لینا حکومت کے واسطہ ہی سے ہوتا ہے خواہ یہ قصاص جان کا ہو یا جوارح کا۔ بہر صورت یہ مقدمہ عدالت میں پیش کیا جائے گا اور قتل بالحق ہمیشہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اسلامی حکومت سے متعلق ہوتا ہے اور اس کی پانچ صورتیں ہیں۔ (١) اسلام کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں سے جہاد کی صورت میں ہوتا ہے، (٢) اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا قتل، (٣) قصاص کی صورت میں، (٤) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کریں تو رجم کی صورت میں ان کو مار دیا جائے گا، (٥) مرتد کا قتل، اور سب قسم کے قتل حکومت سے متعلق ہیں۔ انفرادی طور پر کوئی شخص دوسرے کو قتل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ [٣٩] مقتول کے ورثاء کے اختیارات :۔ یہ اختیار بھی اسے ذاتی طور پر نہیں بلکہ حکومت کی وساطت سے ہوگا کہ چاہے تو قصاص لے لے، چاہے تو خون بہا قبول کرلے اور چاہے تو بالکل ہی معاف کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدمہ قتل کا اصل مدعی مقتول کا ولی ہوتا ہے نہ کہ خود حکومت یا سرکار۔ ہمارے ہاں مروجہ قانون تعزیرات کے مطابق قتل کا مقدمہ قابل راضی نامہ یا مصالحت نہیں ہے جبکہ اسلامی نقطہ ئنظر سے اصل مدعی مقتول کا ولی ہوتا ہے اور اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی وقت بھی مصالحت یا راضی نامہ کرسکے۔ [٤٠] قصاص میں زیادتی کی صورتیں :۔ زیادتی کی کئی شکلیں ممکن ہیں۔ جیسے اصل قاتل کے بجائے کسی دوسرے کو پھنسا دے یا اصل قاتل مل نہیں رہا تو اس کے کسی رشتہ دار سے قصاص کی کوشش کرے یا دیدہ دانستہ کسی دوسرے کو بھی قتل کا ذمہ دار قرار دے۔ یا اگر حکومت مجرم کو قصاص کے لیے اس کے حوالہ کردے تو قصاص میں بہت زیادہ اذیتیں دے یا اگر غصہ کم نہ ہو تو بعد میں مثلہ وغیرہ کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔ [٤١] یعنی حکومت اور افراد معاشرہ سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مقتول کے ولی کی حمایت کریں۔ نہ یہ کہ الٹا قاتل کی حمایت یا اس کی ہمدردی کرنے لگیں اور اس پر ترس کھانے لگیں اس طرح ظلم کا کبھی خاتمہ نہیں ہوسکتا۔