وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا
اور (دیکھو) جو لوگ تمہارے قرابت دار ہیں، جو مسکین ہیں، جو (بے یارومددگار) مسافر ہیں، ان سب کا تم پر حق ہے ان کا حق ادا کرتے رہو اور مال و دولت کو بے محل خرچ نہ کرو جیسا کہ بے محل خرچ کرنا ہوتا ہے۔
[٢٩] رشتہ داروں کے حقوق کی تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی پہلی آیت کا حاشیہ نمبر ٣ ملاحظہ فرمائیے۔ [٣٠] فقراء اور مساکین کا ہر صاحب مال کے مال میں حق ہوتا ہے اور اس کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے آٹھ مدات بیان فرمائیں تو دوسرے نمبر پر فقراء و مساکین کا ذکر فرمایا۔ ہر صاحب مال پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کے فقراء و مساکین پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی خرچ کرے۔ [٣١] مسافروں کے حقوق کے لیے دیکھئے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣٦ (حاشیہ نمبر ٦٧) [٣٢] اسراف اور تبذیر میں فرق :۔ اسراف اور تبذیر میں فرق یہ ہے کہ اسراف ضرورت کے کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں مثلاً اپنے کھانے پینے یا لباس وغیرہ میں زیادہ خرچ کرنا اور تبذیر ایسے کاموں میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں جن کا ضرورت زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو جیسے فخر، ریا نمود و نمائش اور فسق و فجور کے کاموں میں خرچ کرنا، یہ اسراف سے زیادہ برا کام ہے۔ اسی لیے ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی قرار دیا گیا۔ شیطان نے بھی اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تھی۔ ایسے شخص نے بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت مال کو غلط راستوں میں خرچ کرکے اللہ کی ناشکری کی۔ ایک دفعہ ایک ہال میں کچھ علماء بیٹھے محو گفتگو تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے میر مجلس سے سوال کیا کہ اسراف اور تبذیر میں کیا فرق ہے؟ میر مجلس نے اس سوال کو عام فہم اور حسب حال یوں جواب دیا کہ ’’اس وقت ہم جس ہال میں بیٹھے ہیں اس میں چھ پنکھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ ہم صرف دو پنکھوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ اسراف ہے اور اگر ہم یہ سارے پنکھے چلتے چھوڑ کر باہر نکل جائیں تو یہ تبذیر ہے‘‘ میر مجلس کی اس سادہ اور عام فہم مثال سے اسراف اور تبذیر کا فرق پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔