سورة النحل - آیت 62

وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا يَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَىٰ ۖ لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُم مُّفْرَطُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) یہ اللہ کے لیے ایسی باتیں ٹھہراے ہیں جنہیں خود (اپنے لیے) پسند نہیں کرتے ان کی زبانیں جھوٹے دعووں میں بے باک ہیں۔ ( یہ کہتے ہیں) کہ ان کے لیے (ہر حال میں) اچھائی ہی اچھائی ہے۔ ہاں البتہ ان کے لیے (دوزخ کی) آگ ہے۔ البتہ یہ سب سے پہلے اس میں پہنچنے والے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٩] مشرک مکروہ باتیں اللہ کے لئے تجویز کرتے ہیں :۔ یہ مشرک اپنے لیے بیٹیوں کے وجود کو باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں مگر اللہ کے لیے وہی تجویز کرتے ہیں۔ خود یہ برداشت نہیں کرتے کہ ان کی جائیداد یا مال و دولت میں کوئی اجنبی آکر شریک ہوجائے لیکن اللہ کی کائنات میں اس کے شریک بنانا پسند کرتے ہیں۔ خود یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کا مذاق اڑایا جائے مگر اللہ کی آیات کا مذاق اڑا کر خوش ہوتے ہیں۔ کرتوت تو ان کے یہ ہیں اور زبانی دعوے یہ ہیں کہ اللہ ان پر مہربان ہے تبھی تو اس نے ہمیں خوشحال بنایا ہے اور اگر قیامت قائم ہوئی بھی تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس وقت ہم پر مہربان نہ ہو۔ لہٰذا ہمارے لیے یہاں دنیا میں بھلائی ہے اور آخرت میں بھی بھلائی ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوزخ کی آگ ایسے لوگوں کی انتظار میں ہے اور سب سے پہلے یہی لوگ اس کا لقمہ بنیں گے۔ اور کچھ مشرک جو آخرت کا بھی موہوم سا اعتقاد رکھتے تھے، دعویٰ سے کہتے تھے کہ ہم ان فرشتوں یا اللہ کی بیٹیوں کی اس لیے پوجا کرتے ہیں کہ یہ ہمارے وسیلے ہیں لہٰذا آخرت میں ہمارے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے۔ جس کا اللہ نے یوں جواب دیا۔