سورة النحل - آیت 59

يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جس بات کی اسے خوش خبری دی گئی ہے وہ ایسی برائی کی بات ہوئی کہ (شرم کے مارے) لوگوں سے چھپتا پھرے (اور سوچ میں پڑجائے کہ) ذلت قبول کر کے بیٹی کو لیے رہے یا مٹی کے تلے گاڑ دے۔ افسوس ان پر ! کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٦] لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا :۔ اسی وجہ سے مشرکین عرب میں یہ رواج عام چل نکلا تھا کہ وہ لڑکیوں کے پیدا ہوتے ہی انھیں زندہ درگور کردیتے تھے۔ اَیُمْسِکُہُ عَلٰی ھُوْنٍ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خود لوگوں کی نظروں میں ذلیل بنا رہے اور لڑکی کو زندہ رہنے دے اور دوسرا یہ کہ اگر لڑکی کو زندہ رہنے دے تو اسے ایسا ذلیل اور مجبور بنا کر رکھے گویا وہ اس کی اولاد ہی نہیں بلکہ آدمی بھی نہیں۔ بالآخر اسلام نے اس قبیح رسم کا خاتمہ کیا اور زندہ درگور کرنے کو قتل ناحق قرار دیا اور معاشرہ میں عورت کو اس کا جائز مقام دلایا۔