يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے پیغمبر لوگ تم سے (مہینوں کی) چاند رات کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے ہہ دو یہ انسان کے لیے وقت کا حساب ہے اور اس سے حج کے مہینے کا تعین ہوجاتا ہے (باقی جس قدر توہمات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور طرح طرح کی رسمیں اختیار کر رکھی ہیں تو ان کی کوئی اصلیت نہیں) اور یہ کوئی نیکی کی بات نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں (دروازہ چھوڑ کر) پچھواڑے سے داخل ہو) جیسا کہ عرب کی رسم تھی کہ حج کے مہینے کا چاند دیکھ لیتے اور احرام باندھ لینے کے بعد اگر گھروں میں داخل ہونا چاہتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے، پچھواڑے سے راہ نکال کر جاتے) نیکی تو اس کے لیے ہے جس نے اپنے اندر تقوی پیدا کیا۔ پس (ان وہم پرستیوں میں مبتلا نہ ہو) گھروں میں آؤ تو دروازے ہی کی راہ آؤ۔ (پچھواڑے سے راہ نکالنے کی مصیبت میں کیوں پڑو) البتہ اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ (طلب سعادت میں) کامیاب ہو
[٢٤٨] قمری تقویم ہی قدرتی تقویم ہے:۔ سائل کا اصل سوال یہ تھا کہ چاند کیسے گھٹتا بڑھتا ہے اور اس کی شکلیں کیوں کر بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ سوال چونکہ علم ہئیت کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ عام آدمی کی ذہنی سطح سے بلند ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا انسان کی عملی زندگی اور ہدایت سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس سوال کے جواب کا رخ اس طرف موڑ دیا۔ جس کا تعلق انسان کی ہدایت اور عملی زندگی سے تھا اور فرمایا کہ یہ تمہارے لیے قدرتی جنتری ہے۔ نیز تم ان اشکال قمر سے حج کے اوقات بھی معلوم کرسکتے ہو۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جن شرعی احکام کا تعلق دن کے اوقات سے ہو ان کا تعلق سورج سے ہوگا۔ جیسے نمازوں کے اوقات اور روزہ کے لیے سحری و افطاری کے اوقات۔ اسی طرح دنوں کا شمار سورج سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر جب یہ مدت ایک ماہ یا ایک ماہ سے زائد ہوگی تو مدت کا شمار چاند کے حساب سے ہوگا۔ مثلاً رمضان کے ایام (انتیس ہیں یا تیس) بیوہ یا مطلقہ کی عدت، مدت حمل، رضاعت وغیرہ اور زکوٰۃ کا حساب بھی قمری سال کے مطابق ہوگا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حقیقی اور قدرتی تقویم قمری ہی ہے اور یہی مواقیت للناس کا مطلب ہے۔ رہے حج کے اوقات تو وہ ماہ شوال، ذیقعد اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔ [٢٤٩]جاہلیت میں مزعومہ نیکی کے کام:۔ جاہلیت کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اگر کسی کو گھر آنے کی ضرورت پیش آ جاتی اور اسی طرح حج سے واپسی کے بعد تو یہ لوگ واپس گھر کے دروازہ کے بجائے گھر کے پچھواڑے سے یا پچھلی دیوار میں کسی کھڑی سے گھر میں داخل ہوتے اور اسے نیکی کا کام سمجھتے تھے چنانچہ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصاری لوگوں کے حق میں نازل ہوئی وہ جب حج کر کے واپس آتے تو دروازوں سے نہ آتے بلکہ پچھواڑے سے آتے۔ ایک دفعہ ایک انصاری دروازے سے اندر آیا تو سب اسے لعنت ملامت کرنے لگے۔ تب یہ آیت اتری۔ (بخاری، کتاب المناسک، باب قولہ تعالیٰ واٰتوا البیوت من ابو ابھا) اس سے ضمناً یہ معلوم ہوگیا کہ کسی بات کو نیکی سمجھ کر دین میں داخل کردینا مذموم اور ممنوع ہے اور بدعات بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔