وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور (دیکھو) ایسا نہ کرو کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھاؤ اور نہ ایسا کرو کہ مال و دولت کو حاکموں کے دلوں تک پہنچنے کا (یعنی انہیں اپنی طرف مائل کرنے کا) ذریعہ بناؤ۔ تاکہ دوسروں کے مال کا کوئی حصہ ناحق حاصل کرلو۔ اور تم جانتے ہو کہ حقیقت حال کیا ہے
[٢٤٧]باطل طریقوں سے مال کھانے کی صورتیں :۔ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کرنے کی کئی صورتیں ہیں مثلاً چوری، خیانت، دغابازی، ڈاکہ، جوا، سود اور تمام ناجائز قسم کی تجارتیں اور سودے بازیاں ہیں اور اس آیت میں بالخصوص اس ناجائز طریقہ کا ذکر ہے جو حکام کی وساطت سے حاصل ہو۔ اس کی ایک عام صورت تو رشوت ہے کہ حاکم کو رشوت دے کر مقدمہ اپنے حق میں کرا لے اور اس طرح دوسرے کا مال ہضم کر جائے اور دوسری یہ کہ مثلاً تمہیں معلوم ہے کہ فلاں جائیداد یا فلاں چیز زید کی ہے۔ لیکن اس کی ملکیت کا کوئی ثبوت اس کے پاس موجود نہیں ہے اور تم مقدمہ کی صورت میں ایچ پیچ کے ذریعہ وہ چیز زید سے ہتھیا سکتے ہو تو اس طرح عدالت کے ذریعہ تم اس چیز کے مالک بن سکتے ہو۔ اس طرح بھی دوسرے کا مال ہضم کرنا حرام ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ’’میں ایک انسان ہی ہوں۔ تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایک دوسرے کی نسبت اپنی دلیل اچھی طرح پیش کرتا ہو اور میں جو کچھ سنوں اسی کے مطابق فیصلہ کر دوں اور اگر میں کسی کو اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دینے کا فیصلہ کر دوں تو اسے چاہیے کہ نہ لے۔ کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب موعظۃ الامام للخصوم)