وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ
اور دیکھو (انہیں کس طرح پیدا کیا کہ) ان میں تمہاری نگاہوں کے لیے خوش نمائی پیدا ہوگئی ہے، جب تم شام کے وقت انہیں (میدانوں سے چراکر) واپس لاتے ہو اور جب صبح کو (میدانوں میں) چھوڑ دیتے ہو (تو اس وقت ان کا منظر کیسا خوشنما ہوتا ہے؟)
[٦۔ الف] مویشیوں سے شان وشوکت کا اظہار :۔ اہل عرب کا اکثر پیشہ ریوڑ پالنا ہوتا تھا اور یہ ریوڑ عموماً بھیڑ بکریوں اور اونٹوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ خچر، گدھے اور گھوڑے بھی ہوتے تھے مگر نسبتاً کم ہوتے تھے۔ قریش مکہ تو تاجر پیشہ لوگ تھے اور ان کا مال و دولت نقدی درہم و دینار کی صورت میں ہوتا تھا۔ جبکہ عام قبائل عرب کے مالدار ہونے کی علامت یہی جانور تھے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ جانور ہوتے اتنا ہی وہ مالدار سمجھا جاتا تھا اور یہی جانور اسکی چلتی پھرتی دولت سمجھے جاتے تھے اسی میں اس کی شان و شوکت ہوتی تھی۔ شام کے وقت ایسے گلوں اور ریوڑوں کے مالک ان کے انتظار میں اپنی آبادیوں یا گاؤں سے باہر نکل کر بیٹھتے۔ یہ مویشی جب چر چگ کر اور سیر ہو کر شام کو گھر واپس آتے تو اس کے مالک انھیں دیکھ کر پھولے نہ سماتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کے واپس آنے کا پہلے ذکر فرمایا اور صبح جانوروں کی روانگی کے وقت بھی عجب گہما گہمی اور مسرت کی کیفیت ہوتی تھی۔ اسی مسرت اور ٹھاٹھ کی کیفیت کو اللہ نے ذکر فرمایا۔ جو دوسرے فوائد سے زائد تھی۔