فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور اگر کسی شخص کو وصیت کرنے والے سے بے جا رعایت کرنے یا کسی معصیت کا اندیشہ ہو اور وہ (بروقت مداخلت کرکے یا وارثوں کو سمجھا بجھا کر) ان میں مصالحت کرا دے تو ایسا کرنے میں کوئی گنا نہیں (کیونکہ یہ وصیت میں ردوبدل کرنا نہیں ہوگا بلکہ ایک برائی کی اصلاح کردینا ہوگا اور) بلاشبہ اللہ (انسانی کمزوریوں کو) بخشنے والا اور (اپنے تمام احکام میں) رحمت رکھنے والا ہے
[ ٢٢٨] ہاں اگر معلوم ہوجائے کہ مرنے والے نے وصیت کرنے میں غلطی کی، خواہ وہ دیدہ دانستہ تھی۔ یا نادانستہ یا کسی کی طرفداری کر گیا تو اس میں وارثوں کے صلاح مشورہ سے تبدیلی کی جا سکتی ہے بلکہ ولی یا بااختیار وارث کو ایسی ترمیم ضرور کردینا چاہیے۔ اس طرح ممکن ہے کہ وصیت کرنے والے کا گناہ بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔