سورة البقرة - آیت 11
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ
ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد
جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں خرابی نہ پھیلاؤ (اور بدعملیوں سے باز آجاؤ) تو کہتے ہیں (ہمارے کام خرابی کا باعث کیسے ہوسکتے ہیں) ہم تو سنوارنے والے ہیں۔
تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی
[١٦] ان کا فساد یہ تھا کہ ان کی دلی ہمدردیاں تو کافروں سے تھیں اور مسلمانوں میں شامل رہ کر ان کے حالات سے انہیں باخبر رکھتے اور ان کے لیے جاسوسی کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ نئے اور ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کو حیلوں بہانوں سے برگشتہ کرتے تھے اور جنگ کی صورت میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ [١٧] یعنی ہم ہر ایک سے صلح رکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ پہلے کی طرح سب شیر و شکر ہو کر رہیں اور نئے دین (اسلام) کی وجہ سے جو مخالفت بڑھ رہی ہے وہ ختم ہوجائے۔