قَالَ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ
لوط نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو دیکھو یہ میری بیٹیاں (کھڑی) ہیں (یعنی باشندگان شہر کی بیویاں جن کی طرف وہ ملتفت نہیں ہوتے تھے) ان کی طرف ملتفت ہو۔
[٣٦] سیدنا لوط علیہ السلام کی بیٹیاں :۔ اس کا ایک مطلب تو وہی ہے جو آیت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کو ان کے نکاح میں دینے پر تیار ہوگئے حالانکہ پہلے یہی لوگ ان بیٹیوں کا رشتہ طلب کرتے تھے اور آپ نے ان لوگوں کی بدکرداری دیکھ کر رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا اور دوسرا مطلب ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے لہٰذا آپ قوم کی بیٹیوں کے بھی روحانی باپ تھے اور آپ نے انھیں کہا یہ تھا کہ تمہارے گھروں میں جو تمہاری بیویاں ہیں وہ بھی میری بیٹیاں ہیں۔ اگر اتنی ہی تم پر شہوت غالب آرہی ہے تو ان سے پوری کرلو۔ اس آیت سے ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ آپ نے بدکاری کے لیے اپنی بیٹیاں پیش کردی تھیں۔ کیونکہ سیدنا لوط علیہ السلام جس بدی کے خلاف جہاد کر رہے تھے اسی طرح کی ایک دوسری برائی کا خود ارتکاب کیسے کرسکتے تھے؟ بالخصوص اس صورت میں کہ آپ اللہ کے نبی تھے۔