وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور ارباب دانش ! قصاص کے حکم میں (اگرچہ بظاہر ایک جان کی ہلاکت کے بعد دوسری جان کی ہلاکت گوارا کرلی گئی ہے، لیکن فی الحقیقت یہ ہلاکت نہیں ہے) تمہارے لیے زندگی ہے اور یہ سب کچھ اس لیے تاکہ تم برائیوں سے بچو
[٢٢٥] قصاص میں زندگی کیسے ہے؟ یہ نہایت فصیح و بلیغ جملہ ہے۔ جس پر عرب کے فصحاء عش عش کر اٹھے۔ کیونکہ اس مختصر سے جملہ میں دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ یعنی قصاص بظاہر تو موت ہے۔ مگر حقیقت میں پوری زندگی کا راز اسی میں ہے۔ عرب میں جو فصیح محاورہ استعمال ہوتا تھا القتل انفی القتل یعنی قتل قتل ہی سے مٹتا ہے۔ مگر فی القصاص حیاۃ میں بدرجہا زیادہ لطافت، فصاحت، بلاغت ہے اور مضمون بھی بہت زیادہ سما گیا ہے۔ دور جاہلیت میں اگر کوئی شخص مارا جاتا تو اس کے قصاص کا کوئی قاعدہ نہ تھا۔ لہٰذا اس کے بدلے دونوں طرف سے ہزاروں خون ہوتے مگر پھر بھی فساد کی جڑ ختم نہ ہوتی تھی۔ عرب کی تمام خانہ جنگیاں جو برسہا برس تک جاری رہتی تھیں اور عرب بھر کا امن و سکون تباہ ہوچکا تھا۔ اس کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے قصاص کا عادلانہ قانون دے کر دنیا بھر کے لوگوں کو جینے کا حق عطا فرما دیا۔ قصاص اور دیت کے چند ضروری مسائل :۔١۔ قاتل کے لیے تین صورتیں ہیں (i) مقتول کے وارث قصاص پر ہی مصر ہوں (ii) قصاص تو معاف کردیں مگر دیت لینا چاہیں (iii) سب کچھ معاف کردیں۔ مقتول کے وارثوں کو ان سب باتوں کا اختیار ہے۔ ٢۔ مقتول کے وارثوں میں سے اگر کوئی ایک بھی قصاص معاف کر دے تو قصاص کا معاملہ ختم اور پھر باقی صورتوں میں ممکن صورت پر عمل ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو قصاص لینے کے بجائے معاف کردینا یا دیت لے لینا زیادہ پسند ہے۔ ٣۔ کافر کے بدلے مسلم کو قتل نہ کیا جائے (بخاری، کتاب الدیات، (باب لا یقتل المسلم بالکافر) یہ اس صورت میں ہے جبکہ کافر حربی ہو اور اگر ذمی ہو تو اس کا قصاص یا دیت یا عفو ضروری ہے۔ ٤۔ اگر باپ بیٹے کو قتل کر دے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ (احمد بیہقی بسند صحیح، بلوغ الامانی جلد ١٦ ص ٣٢٠) ٥۔ آج کل جاہلی دستور نہیں رہا۔ غلامی کا دور بھی ختم ہوگیا۔ اب یہ صورت باقی ہے کہ اگر عورت مرد کو یا مرد عورت کو قتل کر دے تو پھر کیا ہونا چاہیے۔ شریعت اس بارے میں خاموش ہے اور یہ قاضی کی صوابدید پر ہوگا۔ ٦۔ جان کی دیت سو اونٹ ہے (نسائی، کتاب العقود والدیات، عن عمرو بن جزم) یا ان کی قیمت کے برابر، یا جو کچھ اس وقت کی حکومت اس کے لگ بھگ مقرر کر دے۔ ٧۔ دیت عصبات (ددھیال) کے ذمہ ہے (بخاری، کتاب الدیات باب جنین المراۃ، نیز مسلم، کتاب القسامۃ باب دیت الجنین) تفصیلی مسائل کے لیے کتب احادیث کی طرف رجوع کیا جائے۔