يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ
وہ دن کہ جب یہ زمین بدل کر ایک دوسری ہی زمین ہوجائے گی اور آسمان بدل جائیں گے اور سب لوگ خدائے یگانہ و غالب کے حضور حاضر ہوں گے۔
[٤٨] اللہ کی عدالت میں لوگوں کی پیشی اور حساب :۔ نفخہ صور اول کے وقت موجودہ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا جیسا کہ سورۃ تکویر اور بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد نفخہ صور ثانی تک کیا کیا تغیرات واقع ہوں گے اور یہ درمیانی عرصہ کتنا ہوگا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ نفخہ صور ثانی پر ایک نیا نظام کائنات وجود میں لایا جائے گا جس میں یا تو موجودہ زمین و آسمان کی ذوات ہی تبدیل کردی جائیں گی یا ان کی ہیئت میں خاصا تغیر و تبدل واقع ہوگا۔ آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے۔ اسی نفخہ ثانی کے وقت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک پیدا شدہ سب انسانوں کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ انہی واقعات کا نام قرآن کی اصطلاح میں حشر ونشر ہے۔ اس نئی زمین اور نئے آسمان کے لیے طبعی قوانین بھی موجودہ قوانین سے الگ ہوں گے اور اسی زمین پر اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی۔ میزان الاعمال رکھی جائے گی اور لوگوں کے اعمال کے مطابق ان کی جزاو سزا کے فیصلے ہوں گے۔ قرآن کی بعض آیات سے زمین میں تبدیلی کی جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں اس دن کوئی بلندی یا پستی نہیں رہے گی۔ سب پہاڑ زمین بوس کردیئے جائیں گے اور سب کھڈے بھر دیئے جائیں گے اس طرح سطح زمین ہموار اور پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور سب سے اہم تبدیلی یہ ہوگی کہ سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں کو خشک کردیا جائے۔ اور سمندر کی سطح کا رقبہ خشکی کے رقبہ سے تین گناہ زیادہ ہے اس طرح موجودہ زمین سے اس وقت کی تبدیل شدہ زمین کم از کم چار گنا بڑھ جائے گی اور دوسرے وہ زمین بالکل ہموار ہوگی۔