سورة ابراھیم - آیت 27

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ ایمان والوں کو جمنے اور مضبوط رہنے والی بات کے ذریعہ سے جماؤ اور مضبوطی دیتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی، اور نافرمانوں پر (جماؤ اور مضبوطی کی) راہ گم کردیتا ہے۔ اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (اس کی حکمت کا فیصلہ یہی فیصلہ ہوا کہ ایسا کرے)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٤] کلمہ طیبہ کی برکات میں سے ایک یہ ہے کہ مومن کسی حال میں بھی نہیں گھبراتا۔ وہ مصائب و مشکلات کے دور میں بھی اللہ پر بھروسہ رکھتا، ثابت قدم رہتا اور استقلال سے سب کچھ برداشت کرجاتا ہے اور آخرت میں تو اسے بعینہ وہی حالات و مناظر پیش آئیں گے جن پر وہ پہلے ہی ایمان رکھتا تھا۔ لہٰذا وہاں بھی اس کے گھبرانے کی کوئی وجہ نہ ہوگی اور اس کلمہ کی برکت سے وہاں بھی وہ ثابت قدم رہے گا۔ [ ٣٥] قبر میں سوال و جواب :۔ دنیا اور آخرت کے علاوہ ایک تیسرا مقام عالم برزخ یا قبر کا مقام ہے یعنی قبر میں جب فرشتے میت سے سوال کریں گے تو اس وقت بھی مومن ثابت قدم رہے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا براء بن عازب کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوگا تو وہ کہے گا ﴿اَشْھَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ الاَّاللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ﴾ اس آیت میں قول الثابت سے یہی مراد ہے“(بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب الجنائز، باب ماجاء فی عذاب القبر) (مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھاھا۔ باب عرض مقعد المیت من الجنۃ) اور ترمذی کی روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ جب قبر میں اس سے پوچھا جائے گا کہ ’’تیرا پروردگار کون ہے؟ دین کیا ہے؟ اور نبی کون ہے‘‘ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) دفن کے بعد میت کے لئے دعا :۔ اسی لیے جب کسی مومن کو دفن کیا جاتا ہے تو دفن کے بعد اس کی قبر کے پہلو میں کھڑے ہو کر یہ دعا بھی کی جاتی ہے﴿اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْہُ بالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾اور قول ثابت سے مراد یہی کلمہ طیبہ ہے اور ظالم یعنی کافر اور مشرک وغیرہ سے جب فرشتے قبر میں سوال کریں گے تو وہ کچھ جواب نہ دے سکے گا صرف یہ کہہ دے گا۔ ’’افسوس ! میں نہیں جانتا میں تو دنیا میں وہی کچھ کہہ دیتا تھا جو لوگ کہتے تھے‘‘ یعنی دنیا میں ان لوگوں نے جو کچھ غلط سلط عقیدے گھڑے اور اپنائے ہوئے تھے وہ بھی اسے یکسر بھول جائیں گے کیونکہ ان کی بنیاد ہی جھوٹ اور باطل پر تھی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب آدمی اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس لوٹتے ہیں تو بلاشبہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں : تو اس شخص یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا تھا ؟ اگر وہ ایماندار ہو تو کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے۔ تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے تجھ کو جنت میں ٹھکانہ دیا۔ تو وہ دونوں ٹھکانوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ پھر انس کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا : اگر وہ منافق یا کافر ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ وہ کہتا ہے۔ میں نہیں جانتا میں تو وہی کچھ کہہ دیتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا کہ نہ تو تو خود سمجھا اور نہ خود پڑھا۔ پھر لوہے کے ہنٹروں سے اسے ایسی مار پڑے گی کہ وہ بلبلا اٹھے گا اور اس کی یہ چیخ و پکار جن و انس کے سوا آس پاس کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔ (بخاری، کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب میت کو قبر میں اتارا جاتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جن کا رنگ سیاہ اور آنکھیں نیلگوں ہوتی ہیں ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ تو اس شخص کے متعلق کیا کہتا تھا اگر وہ ایماندار ہے تو وہ کہتا ہے وہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جانتے تھے کہ تو اس طرح کہے گا پھر اس کے لیے ستر ستر گز تک قبر فراخ کردی جاتی ہے پھر اس کے لیے اس میں روشنی کردی جاتی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تو سو جا، وہ کہتا ہے میں اپنے گھر والوں کے پاس جاتا ہوں تاکہ ان کو خبر دوں وہ کہتے ہیں سوجا جس طرح دلہن سوجاتی ہے جس کو نہیں جگاتا مگر زیادہ پیارا لوگوں کا اس کی طرف یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے سونے کی جگہ سے جگائے گا۔ اگر منافق ہوتا ہے وہ (فرشتوں کے جواب میں) کہتا کہ میں نے لوگوں سے سنا وہ ایک بات کہتے تھے۔ میں نے اس کی مثل کہہ دی میں نہیں جانتا، وہ کہتے ہیں ہم جانتے تھے کہ تو اس طرح کہے گا۔ زمین کے لیے کہا جاتا ہے اس پر مل جا وہ اس پر مل جاتی ہے۔ مختلف ہوجاتی ہیں اس کی پسلیاں ہمیشہ رہتا ہے اس میں عذاب کیا گیا یہاں تک کہ اللہ اس کو اس کی قبر سے اٹھائے گا۔ (ترمذی، بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ فصل ثانی) ٣۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔ فرمایا : ”میت کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اس کو بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جس کو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے وہ اسے کہتے ہیں تجھے اس بات کا علم کیسے ہوا وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس کے ساتھ ایمان لایا اس کو سچا جانا۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ثابت رکھتا ہے۔ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ثابت بات کے ساتھ الایۃ۔ آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے۔ میرے بندے نے سچ کہا اس کو جنت کا بچھونا بچھا دو اور جنت کی پوشاک پہنا دو۔ جنت کی طرف دروازہ کھول دو اس کے لیے کھولا جاتا ہے اس کے پاس اس کی ہوا اور خوشبو آتی ہے اور بقدر نگاہ کی درازی کے اس کی قبر کھول دی جاتی ہے اور جو کافر ہے اس کی موت کا ذکر کیا فرمایا : پھر اس کی روح اس کے جسم میں ڈالی جاتی ہے۔ دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں تیرا رب کون ہے، وہ کہتا ہے ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا۔ وہ کہتے ہیں تیرا دین کیا وہ کہتا ہے ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا۔ وہ کہتے ہیں وہ شخص کون ہے جسے تمہاری طرف بھیجا گیا وہ کہتا ہے ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے یہ جھوٹا ہے پس آگ سے اس کا بچھونا بچھا دو اور آگ کا لباس پہنا دو اور دوزخ کی طرف ایک دروازہ کھول دو کہا اس کی لو اور گرمی آتی ہے۔ فرمایا : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر اس پر تنگ کی جاتی ہے یہاں تک اس کی پسلیاں مختلف ہوجاتی ہیں پھر ایک اندھا بہرا فرشتہ مقرر کردیا جاتا ہے اس کے پاس لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ پہاڑ پر مارا جائے تو وہ بھی مٹی بن جائے وہ اس کو گرز کے ساتھ مارتا ہے کہ جن و انس کے سوا مشرق و مغرب کے درمیان جو ہے اس کی آواز سنتا ہے وہ مٹی ہوجاتا ہے پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے۔ (احمد، ابو داؤد، بحوالہ مشکوۃ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ فصل ثانی)