لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ
انسان کے آگے اور پیچھے ایک کے بعد ایک آنے والی (قوتیں) ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ اللہ کبھی اس حالت کو نہیں بدلتا کو کسی گروہ کو حاصل ہوتی ہے جب تک کہ وہ خود ہی اپنی صلاحیت نہ بدل ڈالے۔ اور (پھر) جب اللہ چاہتا ہے کسی گروہ کو (اس کی تغیر صلاحیت کی پاداش میں مصیبت پہنچے تو مصیبت پہنچ ہی کر رہتی ہے، وہ) کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کا کارساز ہو۔
[١٦] حفاظت کرنے والے فرشتے اور باطنی اسباب :۔ یعنی اس دنیا میں صرف ظاہری اسباب ہی کارفرما نہیں بلکہ بہت سے باطنی اسباب بھی ہیں جن کو انسان دیکھ نہیں سکتا اور اس بات کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا رہتا ہے۔ بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کسی ایسے شدید حادثہ سے دوچار ہوتا ہے کہ بظاہر اس کا جانبر ہونا ناممکن نظر آتا ہے لیکن وہ اس حادثہ سے بالکل محفوظ رہتا ہے اور ایسے موقعوں پر بے اختیار ہماری زبانوں پر یہ الفاظ آجاتے ہیں۔ ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘ انہی غیر مرئی اسباب کی اس آیت میں وضاحت کی گئی کہ یہ محض اتفاقات نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردہ فرشتے ہوتے ہیں جو ایسے خوفناک موقعوں سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں اور اس مدت تک اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں جب تک اس کی موت کا وقت نہیں آجاتا اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو پھر انسان کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ [١٧] اس جملہ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ انفال کی آیت نمبر ٥٣ کا حاشیہ۔ [١٨] قوموں کے عروج وزوال کا قانون :۔ قوموں کے عروج وزوال کے قانون میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب مجموعی حیثیت سے کوئی قوم اخلاقی انحطاط کی انتہائی پستیوں تک پہنچ کر معاصی کے ارتکاب میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اسی وقت سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ اگرچہ دنیوی لحاظ سے تہذیب و تمدن کے بلند درجہ تک پہنچ چکی ہو۔ اس کے بعد اگر وہ اپنی اصلاح کرلے تو خیر ورنہ آہستہ آہستہ اس دنیا سے نیست و نابود کردی جاتی ہے۔ پھر اسے اس کے زوال اور انحطاط سے کوئی طاقت بچا نہیں سکتی اور نہ ہی اسے کچھ مدت کے لیے اس عذاب کو ٹال سکتی ہے۔