سورة الرعد - آیت 3

وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) وہی ہے جس نے زمین کی سطح پھیلا دی اس میں پہاڑ دیے نہریں جاری کردیں اور ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے دو دو قسموں کے اگا دیے، اس نے رات اور دن (کے بتدریج ظاہر ہونے) کا ایسا قاعدہ بنا دیا کہ دن کی روشنی کو رات کی تاریکی ڈھانپ لیا کرتی ہے۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے کتنی ہی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧] اس سے پہلی آیت میں نظام کائنات سے معاد پر دلیل لائی گئی تھی۔ اب ارضی آیات سے توحید اور معاد پر دلائل دیئے جارہے ہیں۔ یعنی اللہ نے زمین کو پھیلایا اور اس کے بعض مخصوص مقامات پر پہاڑ پیدا کردیے۔ پھر ان پہاڑوں سے دریا اور نہریں جاری کیں۔ پھر اس پانی سے ہر طرح کی نباتات پیدا فرمائی۔ اور ہر طرح کے پھلوں میں نر اور مادہ پیدا کردیے۔ پھر ان پھلوں اور نباتات کے بارآور ہونے کے لیے دھوپ کی بھی ضرورت تھی اور ٹھنڈک کی بھی۔ لہٰذا اللہ نے دن اور رات پیدا کردیے۔ ان تمام باتوں میں ایک خاص قسم کا نظم، اعتدال اور حکمت پائی جاتی ہے جس سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور مدبر ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ اگر بارش اور پانی کا دیوتا کوئی اور ہوتا، پہاڑوں کا، پھلوں اور نباتات کا کوئی دوسرا تو ان تمام اشیاء میں ایسی مناسبت اور ہم آہنگی ناممکن تھی۔