اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
یہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بلند کردیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ کوئی ستون انہیں تھامے ہوئے نہیں ہے۔ پھر وہ اپنے تخت (حکومت) پر نمودار ہوا (یعنی مخلوقات میں اس کے احکام جاری ہوگئے) اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا کہ ہر ایک اپنی ٹھہرائی ہوئی میعاد تک (اپنی اپنی راہ) چلا جارہا ہے، وہی (اس تمام کارخانہ خلقت کا) انتظام کر رہا ہے اور (اپنی قدرت و حکمت کی) نشانیاں الگ الگ کر کے بیان کردیتا ہے تاکہ تمہیں یقین ہوجائے کہ (ایک دن) اپنے پروردگار سے ملنا ہے۔
[٢] آسما نوں کے ستون یا کشش ثقل ؟۔ یعنی اس بات کا امکان ہے کہ آسمان ستونوں یا سہاروں پر قائم ہوں لیکن وہ ستون یا سہارے غیر مرئی ہوں، انھیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، مجاہد، حسن بصری، قتادہ اور بعض دوسروں سے ایسی ہی روایت کی گئی ہے۔ ان غیر مرئی سہاروں کو ہم آج کل کی زبان میں کشش ثقل کہہ سکتے ہیں۔ [٣] اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ کی تفسیر کے لیے دیکھئے (٧: ٥٤ کا حاشیہ نمبر ٥٤) [٤] سیا روں کی گر دش تا قیامت۔ یہ مقررہ مدت قیامت ہے۔ جب یہ سارا نظام کائنات درہم برہم کردیا جائے گا۔ اس آیت میں پہلے سورج اور چاند کا ذکر فرمایا۔ آگے فرمایا :﴿کُلٌ یَّجْرِیْ لاِجَلٍ مُّسَمًّی﴾حالانکہ کل کا لفظ دو کے لیے نہیں آتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور چاند کی طرح کے سب سیارے اپنی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں اور یہ قیامت تک چلتے ہی رہیں گے۔ ضمناً اس سے دو باتیں اور معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ سورج کو ساکن سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے وہ غلطی پر ہیں۔ لفظ جریان کا اطلاق گردش محوری پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی ضروری ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین بھی چونکہ ایک سیارہ ہے۔ اس لیے اس کی گردش بھی ثابت ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب [٥] کا ئنات کے نظام سے وجود باری تعالیٰ کی دلیل۔ یعنی سیاروں کی گردش کے جو قاعدے اور قوانین مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ ان کے پابند ہیں۔ ذرہ بھر ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔ پھر وہ ہر وقت اپنے اس نظام کی نگرانی بھی کر رہا ہے۔ کیونکہ جو چیز ہر وقت حرکت میں رہے وہ خراب بھی ہوسکتی ہے۔ گھس بھی جاتی ہے۔ اس کی حرکت میں کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔ حتیٰ کہ کسی وقت وہ تباہ بھی ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی تمام باتوں کی تدبیر بھی کر رہا ہے ان سیاروں کو صرف ان کی قوت جاذبہ اور دافعہ کے سپرد ہی نہیں کر رکھا بلکہ ان کی پوری پوری نگہداشت اور ان کی تدبیر یا واقع ہونے والی خامیوں کا علاج بھی کر رہا ہے۔ [٦] کا ئنات کے وجود سے معاد پر دلیل۔ اس جملہ میں موجودہ نظام کائنات کو یوم آخرت پر دلیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے یعنی جو قادر مطلق ایسا عظیم کارخانہ کائنات وجود میں لاسکتا ہے اور اس پر کنٹرول رکھ سکتا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا چنداں مشکل نہیں اور اس دلیل کی دوسری صورت یہ ہے کہ جو ہستی اس نظام کائنات کو ایسے تناسب، عدل اور حکمت کے ساتھ چلا رہی ہے۔ کیا وہ انسان کو ایسا ہی بے لگام چھوڑ سکتی ہے کہ وہ اس دنیا میں جو کچھ کرنا چاہے کرتا پھرے اور اس سے کچھ مؤاخذہ نہ کیا جائے۔ لہٰذا اللہ کے عدل اور حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جن لوگوں نے اپنی ساری زندگی ظلم و ستم ڈھانے میں گزاری ہے۔ ان کو ان کی بدکرداریوں کی ضرور سزا دی جائے۔ اسی طرح جن لوگوں نے اپنے آپ کو ساری زندگی میں اللہ تعالیٰ کی حدود و قیود میں جکڑے رکھا۔ انھیں اس کا بدلہ بھی ضرور دیا جائے اور اس دنیا میں چونکہ انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ لہٰذا از روئے عدل و حکمت دوسری زندگی کا قیام ضروری ہوا۔