لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
یقینا ان لوگوں کے قصہ میں دانشمندوں کے لیے بڑی ہی عبرت ہے۔ یہ کوئی جی سے گھڑی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ اس کتاب کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے آچکی ہے، نیز ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں (ہدایت کی) ساری باتوں کی تفصیل ہے (یعنی الگ الگ کر کے واضح کردینا ہے) اور رہنمائی ہے اور رحمت ہے۔
[١٠٥] قرآن کی تین صفات :۔ قرآن کا موضوع، نوع انسان کی ہدایت ہے۔ لہٰذا جو بات بھی انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی تفصیل اس کتاب میں آگئی ہے۔ تفصیل کُلِّ شَئْیٍ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اس میں سے علم طب یا حساب یا جغرافیہ وغیرہ کی تفصیلات تلاش کرنے لگیں۔ نیز یہ کتاب صرف ان لوگوں کو ہدایت کا کام دیتی ہے جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ پھر ان لوگوں کے لیے رحمت بھی ہے۔ بھلا جس شخص کو بلا کسی معاوضہ اور تکلیف کے زندگی کے ہر پہلو میں بہترین رہنمائی مل جائے اس کے لیے اس سے زیادہ نعمت اور رحمت کیا ہوسکتی ہے؟ اور اس میں جو اقوام سابقہ کے اور انبیاء و رسل کے قصے بیان ہوئے ہیں وہ اپنے اندر اہل عقل و خرد کے لیے عبرتوں کے بے شمار پہلو سمیٹے ہوئے ہیں اور یہی چیز اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کسی انسان کی تصنیف کردہ کتاب نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جو قرون اولیٰ کے صحیح صحیح واقعات بیان کرنے کے ساتھ ان تاریخی واقعات اور قصوں میں بھی ہدایت اور عبرت کے لیے بے شمار اسباق سمو دیتا ہے۔