سورة یوسف - آیت 101

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(پھر یوسف نے دعا کی) پروردگار ! تو نے مجھے حکومت عطا فرمائی اور باتوں کا مطلب اور نتیجہ نکالنا تعلیم فرمایا اے آسمان و زمین کے بنانے والے تو ہی میرا کارساز ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ دنیا سے جاؤں تو تیری فرماں برداری کی حالت میں جاؤں، اور ان لوگوں میں داخل ہوجاؤں جو تیرے نیک بندے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٦] سیدنا یوسف علیہ السلام کی اپنے حق میں دعا :۔ باپ اور بھائیوں سے خطاب کے بعد سیدنا یوسف علیہ السلام اسی ہستی کی طرف متوجہ ہوئے جس نے آپ پر یہ سب احسانات فرمائے تھے۔ پہلے ان احسانات کا اعتراف کیا جن کی بنا پر آپ کو ہر طرح کی دنیوی اور دینی بھلائیاں میسر آئی تھیں پھر اس کی حمد و ثنا اور اپنے لیے دعا میں مشغول ہوگئے اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی اللہ کا بندہ جس قدر اللہ کا احسان شناس ہوتا ہے۔ اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اس کا دل اللہ کی عظمت اور اس کی مہربانیوں پر شکریہ ادا کرنے کے لیے جھک جاتا ہے۔ اپنے پروردگار سے اس کی محبت اور ایمان میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ حمد و ثنا کے بعد دوبارہ آپ نے اعتراف فرمایا کہ تو ہی میرا کارساز، حامی، سرپرست اور نگہبان ہے۔ لہٰذا مجھے اپنی فرمانبرداری پر قائم رکھنا۔ مجھے موت آئے تو تیری فرمانبرداری کی حالت میں آئے اور مرنے کے بعد مجھے نیک لوگوں یعنی میرے آباؤ و اجداد سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، سیدنا اسماعیل علیہ السلام، سیدنا اسحاق علیہ السلام اور سیدنا یعقوب علیہ السلام کے ساتھ ملا دینا، نیز اس سے تمام نیک لوگ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں، جیسا کہ الفاظ کے عموم سے واضح ہوتا ہے۔ جب تک سیدنا یعقوب علیہ السلام زندہ رہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام حکومت کرتے رہے۔ لیکن جب والد فوت ہوگئے تو آپ اپنی مرضی سے اقتدار سے دست بردار ہوگئے سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو جو وصیتیں کی تھیں ان کا ذکر سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ منجملہ ایک یہ بھی تھی کہ میری میت کو شام لے جاکر وہاں آباؤ اجداد کے ساتھ دفن کرنا۔ چنانچہ سیدنا یوسف علیہ السلام خود انھیں دفن کرنے کے لیے شام آئے اور دفن کے بعد واپس چلے گئے۔ ایک دفعہ آپ علیہ السلام (سیدنا یوسف علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا جب بنی اسرائیل مصر سے نکل جائیں گے، اس وقت وہ میری میت کو ساتھ لے جائیں چنانچہ تقریباً پانچ سو سال بعد جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے تو سیدنا یوسف علیہ السلام کا تابوت بھی ساتھ لے گئے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کا زلیخا سے نکاح کا افسانہ :۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ زلیخا بعد میں مسلمان ہوگئی تھی اور سیدنا یوسف علیہ السلام نے ان سے نکاح کرلیا تھا۔ لیکن جس قدر تکلف اور تصنع سے اسرائیلی روایات سے کھینچ تان کر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں حقیقت کا حصہ کس قدر ہوسکتا ہے۔ قرآن و احادیث اس بارے میں مطلق خاموش ہیں۔ ویسے بھی کسی پیغمبر کے شایان شان نہیں ہوتا کہ وہ زلیخا جیسی حیا باختہ اور مکرو فریب کرنے والی عورت سے نکاح کرے۔