فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
پھر جب (باپ کے حکم کی تعمیل میں یہ لوگ مصر پہنچے اور) یوسف کے پاس گئے تو (اپنے پھر آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہا اے عزیز ہم پر اور ہمارے گھر کے آدمیوں پر بڑی سختی کے دن گزر رہے ہیں، پس (مجبور ہو کر غلہ کی طلب میں ہمیں پھر نکلنا پڑا) ہم تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں، اسے قبول کرلیجیے، اور غلہ کی پوری تول عنایت کیجیے اور (اسے خریدوفروخت کا معاملہ نہ سمجھیے بلکہ) ہمیں (محتاج سمجھ کر) خیرات دے دیجیے، اللہ خیرات کرنے والوں کو ان کا اجر دیتا ہے۔
[٨٥] تیسری بار برادران یوسف، یوسف علیہ السلام کے دربار میں :۔ اب ان بھائیوں کو یوسف علیہ السلام کے متعلق تو کچھ علم نہ تھا کہ وہ کہاں ہوسکتا ہے اور کس سمت کو جاکر اسے تلاش کیا جائے۔ کیونکہ ظن ضرور تھا کہ جس قافلہ نے اسے کنویں سے نکالا تھا وہ مصر کو جارہا تھا۔ لہٰذا یہ امکان تھا کہ شاید وہ مصر میں ہی ہو۔ البتہ بن یمین کے متعلق یقین تھا کہ اسے شاہ مصر نے اپنے پاس رکھ لیا ہے اور تیسرا بھائی بھی ادھر ہی تھا۔ لہٰذا انہوں نے تیسری بار پھر مصر کا رخ کیا کچھ تھوڑی بہت پونجی بھی مہیا کرلی کہ اس قحط سالی کے زمانہ میں کچھ غلہ ہی لے آئیں گے اور اسی دوران اپنے بھائیوں کی بازیافت کے لیے بھی کوشش کریں گے چنانچہ مصر پہنچ کر انہوں نے سب سے پہلے شاہ مصر کا ہی رخ کیا اور اس سے التجا کی کہ ہم لوگوں پر سخت مشکل وقت آن پڑا ہے۔ کھانے کو غلہ نہیں اور غلہ کے لیے رقم بھی نہیں تھوڑی سی رقم ہم لائے ہیں۔ اگر آپ غلہ پورا دے دیں تو آپ کی انتہائی مہربانی ہوگی۔ آپ کے ہم پر پہلے بھی بہت احسانات ہیں جن کا ہم شکریہ ادا نہیں کرسکتے۔ اب بھی ہم پر احسان فرمائیے اور اللہ ہی اس کی آپ کو جزا دے گا۔ اور انشاء اللہ وہ ضرور آپ کو جزا دے گا۔