ارْجِعُوا إِلَىٰ أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ
تم لوگ باپ کی طرف لوٹ جاؤ اور اس سے جا کر کہو، اے ہمارے باپ ! (ہم کیا کریں) تیرے بیٹے نے (پرائے ملک میں) چوری کی، جو بات ہمارے جاننے میں آئی وہی ہم نے ٹھیک ٹھیک کہہ دی اور ہم غیب کی باتوں کی خبر رکھنے والے نہ تھے (کہ پہلے سے جان لیتے، بنیامین سے ایسی بات سرزد ہونے والی ہے)
[٧٨] یعنی ہم نے بچشم خود دیکھا تھا کہ گمشدہ پیالہ اس کے سامان سے نکلا تھا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اس نے چوری کی ہے اور جب ہم نے آپ سے اس کی حفاظت کرنے کا عہد و پیمان کیا تھا اس وقت ہمیں یہ تو معلوم نہ تھا کہ وہ مصر جاکر چوری کرے گا، اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہم سے پوچھا کہ تمہارے ہاں چور کی کیا سزا ہے، تو ہم نے وہی بات بتائی جو ہم جانتے تھے یعنی چور اس شخص کی غلامی میں ایک سال رہے جس کی اس نے چوری کی ہے۔ مگر ہمیں یہ کیا خبر تھی کہ ہمارا یہ بیان ہم پر ہی لاگو ہونے والا ہے۔