فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
پس (کارندوں کے سردرار نے) ان کی بوریوں کی تلاشی کی، قبل اس کے کہ یوسف کے بھائی (بنیامین) کی پوری کی تلاشی لیتے، اور کچھ نہ پایا) پھر یوسف کے بھائی کی بوری (دیکھی اور اس میں) سے پیالہ نکال لیا، (تو دیکھو) اس طرح ہم نے یوسف کے لیے (بنیامین کو پاس رکھنے کی) تدبیر کردی، وہ بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے ایسا نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے بھائی کو روک لے (اگرچہ ایسا کرنے کے لیے اس کا دل بے قرار تھا) مگر ہاں اسی صورت میں کہ اللہ کو (اس کی راہ نکال دینا) منظور ہوتا (سو اس نے غیبی سامان کر کے راہ نکال دی) ہم جسے چاہتے ہیں مرتبوں میں بلند کردیتے ہیں اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والی ہستی ہے (جس کا علم سب کو احاطہ کیے ہوئے ہے، یعنی اللہ کی ہستی)
[٧١] اللہ کی تدبیر کیا تھی؟ سیدنا یوسف علیہ السلام اپنے بھائی بن یمین کو اپنے پاس ہی روک رکھنا چاہتے تھے۔ اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے بھائیوں پر ابھی اپنے بادشاہ ہونے کی حقیقت کا راز فاش نہ ہو۔ اسی لیے پیالہ بن یمین کے سامان میں رکھنے کی تدبیر کی گئی تھی اور جو تدبیر اللہ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے لیے کی وہ یہ تھی کہ آپ اس کو شاہ مصر کے قانون تعزیرات کے مطابق گرفتار کرکے جیل میں نہ بھیجیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے برادران یوسف کے منہ ہی سے یہ بات نکلوا دی کہ ہمارے ہاں چور کی سزا یہ ہوتی ہے کہ جو شخص چوری کرے وہ ایک سال کے لیے اس شخص کی غلامی کرے جس کا اس نے مال چرایا ہے۔ اس طرح باعزت طور پر بن یمین کو کم از کم ایک سال کے لیے اپنے حقیقی بھائی یوسف علیہ السلام کے پاس رہنے کا اللہ تعالیٰ نے موقع فراہم کردیا اور وہ کچھ ہو کے رہا جو اللہ کو منظور تھا۔ [٧٢] اس جملہ میں سیدنا یوسف علیہ السلام اور برادران یوسف کا تقابل پیش کیا گیا ہے کہ جس یوسف علیہ السلام کو اس کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال کر صفحہ ہستی سے غائب کرنا چاہا تھا۔ اسے اللہ نے اتنا اعزاز بخشا کہ اس کے بھائی اسی یوسف کے رحم و کرم کے محتاج بن گئے۔ [٧٣] یعنی اگرچہ یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا تھا تاہم وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ کون سی ایسی تدبیر کی جائے کہ ان کا بھائی باعزت طور پر ان کے پاس رہ سکے۔ یہ تدبیر اللہ نے یوسف علیہ السلام کی خاطر پیدا کردی۔ کیونکہ وہ ہر صاحب علم سے بڑھ کر علیم ہستی ہے۔