قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ
(شاہی کارندوں نے) کہا ہمیں شاہی پیمانہ نہیں ملتا، جو شخص اسے لادے اس کے لیے ایک بار شتر (غلہ) انعام ہے اور (کارندوں کے سردار نے کہا) میں اس بات کا ضامن ہوں۔
[٦٩] شاہ مصر کے پیالہ کی چوری :۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بن یمین کو اپنے ہاں روک لینے کی یہ تدبیر سوچی کہ اس کے سامان میں یعنی غلہ میں اپنا مرصع پانی پینے کا پیالہ بھی رکھ دیا اور اس تدبیر کی آپ نے اپنے بھائی کو بھی خبر دے دی تاکہ وہ کسی موقع پر گھبراہٹ کا شکار نہ ہوجائے۔ چنانچہ جب برادران یوسف کا سامان تیار کیا جارہا تھا تو آپ نے چپکے سے اپنا مرصع پانی پینے کا پیالہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا اور سامان تیار کرکے انھیں شہر مصر سے روانہ کردیا گیا۔ جب یہ لوگ ذرا آگے نکل آئے تو چند آدمی ان کے پیچھے تیزی سے آرہے تھے۔ ان میں سے ایک نے بلند آواز سے انھیں پکارا اور کہا : ذرا ٹھہر جاؤ، تم تو چور معلوم ہوتے ہو، برادران یوسف نے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا کہ چند آدمی ان کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا سامان چوری ہوا ہے؟تعاقب کرنے والوں میں سے ایک شخص بولا کہ بادشاہ کا پانی پینے کا مرصع پیالہ گم ہوگیا ہے۔ اس کی ہر جگہ تلاش کی گئی لیکن ملا نہیں۔ ہم اسی کی تلاش میں نکلے ہیں۔ جو شخص یہ پیالہ تلاش کرکے بادشاہ کے پیش کرے۔ اس کے لیے ایک بار شتر غلہ انعام مقرر ہوا ہے اور میں اس بات کا ضامن ہوں کہ جو شخص پیالہ ڈھونڈ نکالے میں اس کو بادشاہ سے مقررہ انعام دلوا دوں، یا اگر خود تلاش کرسکوں تو یہ انعام خود وصول کرلوں۔ اور لفظ زعیم کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مجھ پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو میں وہ پیالہ ڈھونڈ کر بادشاہ کے حضور پیش کروں اور اس صورت میں مجھے مقررہ انعام بھی ملے گا۔ صواع کے معنی :۔ نیز ان آیات میں دو بار صواع کا لفظ آیا ہے۔ صواع کو بعض لوگوں نے صاع سے مشتق سمجھ کر اس کا معنی غلہ ماپنے کا معروف پیمانہ (پنجابی ٹوپہ) کردیا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ صاع سے مشتق یا ماخوذ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا معنی پانی پینے کا ایسا پیالہ ہے۔ جس میں جواہرات وغیرہ جڑے ہوئے ہوں اور اگر یہ پیالہ شیشہ کا ہو تو اسے قدح، لکڑی کا ہو تو عُس، چمڑے کا ہو تو علبۃ اور مٹی کا ہو تو مرکن کہتے ہیں۔ (الجمال والکمال ص ١٧٤ ازسلمان منصور پوری)