وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ
اور جب ان لوگوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کی پونجی انہی کو لوٹا دی گئی ہے، تب انہوں نے (اپنے باپ سے کہا) اے ہمارے باپ ! اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہیے؟ دیکھ یہ ہماری پونجی ہے جو ہمیں لوٹا دی گئی (ہمیں غلہ بھی اس نے دے دیا اور قیمت بھی واپس کردی، پس ہمیں اجازت دے کہ بنیامین کو ساتھ لے کر پھر جائیں) اور پنے گھرانے کے لیے رسد لے آئیں، ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ لے لیں گے۔ یہ غلہ ( جو اس مرتبہ لائے ہیں) بہت تھوڑا ہے۔
[٦٢] پھر جب غلہ کی بوریاں کھولنے اور ان سے غلہ نکالنے کے دوران انھیں وہ نقدی بھی واپس مل گئی جو انہوں نے بطور قیمت غلہ ادا کی تھی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ شاہ مصر کے احسانات انھیں یاد آنے لگے اور بن یمین کو ساتھ لے جانے کے دوبارہ تقاضا کے لیے ایک نئی وجہ بھی پیدا ہوگئی۔ پہلے تقاضا کے وقت انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ غلہ کی رقم کب تک میسر آئے گی اور کب ہمیں دوبارہ مصر جانا ہوگا۔ اس لیے بن یمین کے ساتھ لے جانے کا مطالبہ بھی کچھ ایسا پرزور نہ تھا۔ شاید یہ خیال کرتے ہوں کہ وقت آنے پر باپ مان ہی جائے گا یا اسے منا لیں گے، مگر اب جبکہ غلہ کے لیے قیمت بھی میسر آگئی تو دوبارہ بن یمین کی حفاظت کے عہد و پیمان کرنے اور والد کو اسے ہمراہ لے جانے پر مجبور کرنے اور اس کے فوائد بتلانے لگے۔ [٦٣] یعنی بن یمین کا حصہ بھی ملے گا اور اب جبکہ ساری سہولتیں میسرہیں تو پھر کیوں نہ غلہ لانے کی کوشش کی جائے، اور بعض لوگوں نے اس آیت میں ﴿یَسِیْرٌ﴾ کے معنی آسان کے بجائے قلیل لیے ہیں۔ یعنی جو غلہ ہم لاچکے ہیں وہ ہمارے گھرانے کے لیے تھوڑا ہے۔ کب تک چلے گا۔ لہٰذا ہمیں دوبارہ غلہ لانے کے موقعہ کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہیے۔