سورة یوسف - آیت 52

ذَٰلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ میں نے اس لیے کہا کہ اسے معلوم ہوجائے (یعنی یوسف کو معلوم ہوجائے) میں نے اس کے پیٹھ پیچھے اس کے معاملہ میں خیانت نہیں کی، نیز اس لیے (واضح ہوجائے) اللہ خیانت کرنے والوں کی تدبیروں پر کبھی (کامیابی کی) راہ نہیں کھولتا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥١] سیدنا یوسف کا صبر وتحمل :۔ جرم کا سب سے بہتر اور اول درجہ کا ثبوت مجرم کا اپنا اعتراف ہوتا ہے اس اعتراف کے بعد جب حق نتھر کر سامنے آگیا تو اس وقت سیدنا یوسف علیہ السلام نے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں نے یہ مطالبہ کیا ہی اس لیے تھا کہ میری پوزیشن عام لوگوں کی نظروں میں بالکل واضح ہوجائے اور اس لیے بھی کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ دغابازوں اور خائن قسم کے لوگوں کا فریب چلنے نہیں دیتا۔ اس مقام پر خائن سے مراد وہ ہاتھ کاٹنے والی عورتیں ہیں۔ جنہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یوسف علیہ السلام بالکل پاکیزہ سیرت انسان ہے اور اصل مجرم زلیخا ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام پر ہی یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ اسے زلیخا کی بات مان لینا چاہیے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے مقدمہ کی تحقیق تک اپنی قید سے رہائی کے معاملہ کو جس پیغمبرانہ صبرو تحمل سے تاخیر میں ڈالا اس کی داد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دی ہے۔ ﴿ لَوْلَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ کَمَا لَبِثَ یُوْسُفُ لاَ جَبْتُ الدَّاعِیَ﴾(بخاری، کتاب التفسیر، باب لقد کان فی یوسف۔۔) (یعنی اگر میں اتنی مدت قید میں رہتا جتنی مدت یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں فوراً۔۔ بلانے والے کے ساتھ ہولیتا) اس جملہ میں ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے صبر و تحمل کی تعریف فرمائی اور دوسرے نہایت لطیف پیرایہ میں اپنی عبودیت کاملہ اور انکساری کا اظہار فرمایا ہے۔