ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِينٍ
پھر (ایسا ہوا کہ) اگرچہ وہ لوگ (یعنی عزیز اور اس کے خاندان کے آدمی) نشانیاں دیکھ چکے تھے (یعنی یوسف کی پاک دامنی کی نشانیاں) پھر بھی انہیں یہی بات ٹھیک دکھائی دی کہ ایک خاص وقت تک کے لیے یوسف کو قید میں ڈال دیں۔
[٣٥] مصر کی عدالتوں پر بڑے لوگوں کا دباؤ:۔ یعنی پورے شہر کے رؤساء اور اعیان سلطنت پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ سیدنا یوسف علیہ السلام بالکل بے قصور ہیں اور مجرم زلیخا ہے۔ اس کے باوجود اس ملک کی عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ یوسف ہی کو کسی نامعلوم مدت کے لیے قید میں ڈال دیا جائے۔ کیونکہ اب اصل مجرم صرف زلیخا نہ رہی تھی بلکہ اعیان سلطنت کی بیگمات بھی اس جرم میں اس کی ہم نوا اور برابر کی شریک بن چکی تھیں۔ اس واقعہ سے جہاں مردوں کی اپنی بیگمات کے سامنے بے بسی پر روشنی پڑتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی انصاف کرنے والی عدالتیں بھی ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے اصول پر اپنے فیصلے کیا کرتی تھیں اور نامعلوم مدت اس لیے تھی کہ نہ تو کوئی فرد جرم لگ سکتی تھی اور نہ ہی یہ فیصلہ کیا جاسکتا تھا کہ اس بے گناہی کی سزا کتنی مدت ہوسکتی ہے، اور غالباً اس میں یہ مصلحت سمجھی گئی کہ جب تک لوگ اور بالخصوص عورتیں یہ واقعہ بھول نہ جائیں یوسف کو قید میں رہنے دیا جائے۔