سورة یوسف - آیت 15

فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جب یہ لوگ (باپ سے رخصت لے کر) یوسف کو ساتھ لے گئے اور سب نے اس پر اتفاق کرلیا کہ اندھے کنویں میں ڈال دیں (اور ایسا ہی کر گزرے) تو ہم نے یوسف پر وحی بھیجی کہ (مایوس نہ ہو) ایک دن ضرور آنے والا ہے جب ان کا یہ معاملہ تو انہیں جتائے گا اور وہ نہیں جانتے (کہ کیا کچھ ہونے والا ہے)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣] چنانچہ یہ برادران یوسف اپنے باپ کو چکمہ دینے اور اپنا اعتماد جمانے میں کامیاب ہوگئے اور باپ نے ان پر اعتبار کرتے ہوئے سیدنا یوسف علیہ السلام کو دوسرے دن ان کے ہمراہ کردیا۔ یہ بہت بڑا مرحلہ تھا جو سرانجام پا گیا۔ پھر جب وہ اپنی اتفاق سے طے شدہ تجویز کے مطابق اسے ایک گمنام کنویں میں پھینکنے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو صبر عطا فرمایا اور ان کے دل میں بات ڈال دی کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ تم اپنے بھائیوں کو ان کے یہ کرتوت جتلاؤ گے۔ درآنحالیکہ وہ تمہیں پہچانتے بھی نہ ہوں گے اور اس نہ پہچاننے کی بھی دو وجوہ ممکن ہیں ایک یہ کہ یوسف کسی اتنے بلند مرتبہ پر فائز ہوں کہ برادران یوسف کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آسکے کہ ان کا بھائی اس مقام پر سرفراز ہوسکتا ہے اور اس کا لباس و طرز بودو باش ان سے اس قدر مختلف اور مغائر ہوسکتی ہے، اور دوسرے یہ کہ اتنا طویل عرصہ گزر چکا ہو کہ شکل میں تبدیلی کی وجہ سے وہ انھیں پہچان بھی نہ سکیں۔ واضح رہے ﴿ غَیٰبَتِ الجُبِّ﴾کا مفہوم کسی کچے کنویں میں پانی کی سطح سے ذرا اوپر وہ چھوٹے چھوٹے طاقچے ہیں جن میں پاؤں جمائے جاسکیں اور چھوٹی موٹی چیز بھی رکھی جاسکے تاکہ کنویں کی صفائی وغیرہ کے لیے کنوئیں میں اترنے اس سے نکلنے میں سہولت رہے۔ اسی طرح کے ایک چھوٹے سے طاقچے میں بردران یوسف سیدنا یوسف علیہ السلام کو رکھ کر واپس آگئے۔