سورة البقرة - آیت 150

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) تم کہیں سے بھی نکلو (اور کسی مقام میں بھی ہو) لیک چاہیے کہ (نماز میں اپنا رخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیر لو اور (اے پیروان دعوت قرآنی) تم بھی اپنا رخ اسی طرف کو کرلیا کرو۔ خواہ کسی جگہ اور کسی سمت میں ہو۔ اور یہ (جو تقرر قبلہ پر اس قدر زور دیا گیا ہے تو یہ) اس لیے ہے تاکہ تمہارے خلاف لوگوں کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہے (اور یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ معبد ابراہیمی ہی تمہارا قبلہ ہے) البتہ جو لوگ حق سے گزر چکے ہیں (ان کی مخالفت ہر حال میں جاری رہے گی) تو ان سے نہ ڈرو۔ مجھ سے ڈرو۔ اور علاوہ بریں یہ (حکم) اس لیے بھی (دیا گیا) ہے کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کردوں۔ نیز اس لیے کہ (سعی و عمل کی) سیدھی راہ پر تم لگ جاؤ

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨٦]تحویل قبلہ کےحکم کوتین بار کیوں دہرایاگیا؟ اس آیت کو مکرر اور سہ کرر لایا گیا ہے۔ کیونکہ اس کی وجوہ الگ الگ ہیں۔ مثلاً ﴿قَدْ نَرَیٰ تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِیْ السَّمَاء﴾سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اظہار کی تکریم کی خاطر تحویل قبلہ کا حکم دیا، اور ﴿وَلِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْہَا ﴾ میں یہ ارشاد فرمایا، تحویل قبلہ کے مسئلہ پر جھگڑے کھڑے کرنا درست نہیں۔ اصل کام تو نیک کاموں کی طرف پیش قدمی ہے اور آیت ﴿لِئَلَّا یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّــۃٌ ﴾ میں یہ واضح فرمایا کہ لوگوں کو تم مسلمانوں سے جھگڑنے کا موقع باقی نہ رہے، وہ یوں کہ تحویل قبلہ سے بیشتر یہودی مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ ہمارا دین تو نہیں مانتے لیکن نماز ہمارے ہی قبلہ کی طرف پڑھتے ہیں اور مشرکین مکہ یہ اعتراض کرتے کہ دعویٰ تو ابراہیم علیہ السلام کے طریق پر چلنے کا کرتے ہیں مگر ان کا قبلہ چھوڑ دیا ہے۔ [ ١٨٧] بے انصاف یا ہٹ دھرم لوگ تحویل قبلہ کے بعد بھی اعتراض چھوڑیں گے نہیں۔ مثلاً یہود نے یہ اعتراض کردیا کہ ہمارے قبلہ کی حقانیت ظاہر ہونے اور اسے تسلیم کرلینے کے بعد اب محض ضد اور حسد کی بنا پر اسے چھوڑ دیا اور مشرک یہ کہنے لگے کہ ہمارے قبلہ کا حق ہونا انہیں اب معلوم ہوا تو اسے اختیار کرلیا۔ اسی طرح ہماری اور بھی کئی باتیں منظور کرلیں گے۔ لہٰذا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم ان لوگوں کی باتوں کی طرف توجہ نہ دو نہ ان سے ڈرنے کی ضرورت ہے، بلکہ صرف مجھ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ [ ١٨٨] تحویل قبلہ ایک نعمت تھی :۔نعمت سے مراد وہی امامت اور پیشوائی کی نعمت ہے جو بنی اسرائیل سے سلب کر کے اس امت کو دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم دراصل اس منصب پر تمہاری سرفرازی کی علامت ہے۔ جب تک میری اطاعت کرتے رہو گے، یہ منصب تمہارے پاس رہے گا۔ اور نافرمانی کی صورت میں یہ چھن بھی سکتا ہے۔